فرحان محمد خان
محفلین
وہ ابتداؤں کی ابتدا ہے ، وہ انتہاؤں کی انتہا ہے
ثنا کرے اس کی کوئی کیوں کر ، بشر ہے لیکن خدا نما ہے
وہ کون ہے منتظر تھا جس کا جہانِ نورانیاں ازل سے
گواہ ہے کہکشاں ابھی تک کہ کوئی اس راہ سے کیا ہے
وہ سرِ تخلیق ہے مجسم کہ خود ہی آدم ہے خود ہی عالم
وجود کی ساری وسعتوں پر محیط ہے جو وہ دائرہ ہے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخر ، وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
یہ سوچ ہے آگہی سے باہر وہ اور کیا ہے جو رہ گیا ہے
اُنھی کے مسکن اُنھی کے گھر ہیں اُنھی کی نسبت سے معتبر ہیں
حرم ہو طیبہ ہو ، میرا دل ہو یہ سب وہی ایک سلسلہ ہے
نہیں ہے کوئی مثیل اُس کا نہیں ہے کوئی نظیر اُس کا
وہ شخص بھی ہے وہ عکس بھی ہے اور آپ اپنا ہی آئینہ ہے
ہے حدِ فاصل کہ خطِّ واصل کہ قوس کے قوس ہے مقابل
سلیمؔ عاجز ہے فہمِ کامل کہاں بشر ہے کہاں خدا ہے
ثنا کرے اس کی کوئی کیوں کر ، بشر ہے لیکن خدا نما ہے
وہ کون ہے منتظر تھا جس کا جہانِ نورانیاں ازل سے
گواہ ہے کہکشاں ابھی تک کہ کوئی اس راہ سے کیا ہے
وہ سرِ تخلیق ہے مجسم کہ خود ہی آدم ہے خود ہی عالم
وجود کی ساری وسعتوں پر محیط ہے جو وہ دائرہ ہے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخر ، وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
یہ سوچ ہے آگہی سے باہر وہ اور کیا ہے جو رہ گیا ہے
اُنھی کے مسکن اُنھی کے گھر ہیں اُنھی کی نسبت سے معتبر ہیں
حرم ہو طیبہ ہو ، میرا دل ہو یہ سب وہی ایک سلسلہ ہے
نہیں ہے کوئی مثیل اُس کا نہیں ہے کوئی نظیر اُس کا
وہ شخص بھی ہے وہ عکس بھی ہے اور آپ اپنا ہی آئینہ ہے
ہے حدِ فاصل کہ خطِّ واصل کہ قوس کے قوس ہے مقابل
سلیمؔ عاجز ہے فہمِ کامل کہاں بشر ہے کہاں خدا ہے
سلیمؔ احمد