اسامہ جمشید
محفلین
وہ اک اداس شخص تھا
وہ اک عجیب شخص تھا
کہ کھنچ رہا تھا دم بدم
مری طرف وہ خود بخود
سما گیا تھا مجھ میں وہ
وہ جسم بن چکا تھا بس
مگر نظر سی لگ گئی
مگر وہ روح مر گئی
اسی سیاہ جشم نے
مرے حواس گم کیے
مجھے کیا گرفت یوں
کہ میں نشے سے چور تھا
مگر اسے نفور تھا
تو پھر سگار تھام کر
کہیں چراغ کے تلے
اسے دھواں بنا دیا
اسے کہیں اڑا دیا
مگر مرا طریق ہے
کہ جو عزیز ہو چکا
"وہ آج بھی عزیز ہے "
اسی نحیف یاد کی
وہ جس کی آنکھ نے وفا
محبتوں میں بانٹ دی
وہ اک اداس شخص تھا
وہ جو جہاد بن گیا
تو خواہشات جل گئی
وہ مرمری بدن کی بو
جو بارشوں کے ماہ میں
کہیں سے آج آ گئی
اداسیاں بڑھا گئی
وہ شخص جو ادیب تھا
وہ اس جہاں کا دیپ تھا
اسے تھکا رہی تھی پر
مساعفتوں کی عجلتیں
کسیا دیار غیر میر
اسے ضرورتیں تھی پر
ضرورتوں کے دم گھٹے
کہ دام دل ہی بڑھ گیا
وہ اک حسین شخص تھا
وہ اس جہاں سے اڑھ گیا
اسامہ جمشید
فجر سے پہلے 30 اگست 2017
وہ اک عجیب شخص تھا
کہ کھنچ رہا تھا دم بدم
مری طرف وہ خود بخود
سما گیا تھا مجھ میں وہ
وہ جسم بن چکا تھا بس
مگر نظر سی لگ گئی
مگر وہ روح مر گئی
اسی سیاہ جشم نے
مرے حواس گم کیے
مجھے کیا گرفت یوں
کہ میں نشے سے چور تھا
مگر اسے نفور تھا
تو پھر سگار تھام کر
کہیں چراغ کے تلے
اسے دھواں بنا دیا
اسے کہیں اڑا دیا
مگر مرا طریق ہے
کہ جو عزیز ہو چکا
"وہ آج بھی عزیز ہے "
اسی نحیف یاد کی
وہ جس کی آنکھ نے وفا
محبتوں میں بانٹ دی
وہ اک اداس شخص تھا
وہ جو جہاد بن گیا
تو خواہشات جل گئی
وہ مرمری بدن کی بو
جو بارشوں کے ماہ میں
کہیں سے آج آ گئی
اداسیاں بڑھا گئی
وہ شخص جو ادیب تھا
وہ اس جہاں کا دیپ تھا
اسے تھکا رہی تھی پر
مساعفتوں کی عجلتیں
کسیا دیار غیر میر
اسے ضرورتیں تھی پر
ضرورتوں کے دم گھٹے
کہ دام دل ہی بڑھ گیا
وہ اک حسین شخص تھا
وہ اس جہاں سے اڑھ گیا
اسامہ جمشید
فجر سے پہلے 30 اگست 2017