وہ اک اداس شخص تھا

وہ اک اداس شخص تھا

وہ اک عجیب شخص تھا
کہ کھنچ رہا تھا دم بدم
مری طرف وہ خود بخود
سما گیا تھا مجھ میں وہ
وہ جسم بن چکا تھا بس
مگر نظر سی لگ گئی
مگر وہ روح مر گئی

اسی سیاہ جشم نے
مرے حواس گم کیے
مجھے کیا گرفت یوں
کہ میں نشے سے چور تھا
مگر اسے نفور تھا
تو پھر سگار تھام کر
کہیں چراغ کے تلے
اسے دھواں بنا دیا
اسے کہیں اڑا دیا
مگر مرا طریق ہے
کہ جو عزیز ہو چکا
"وہ آج بھی عزیز ہے "

اسی نحیف یاد کی
وہ جس کی آنکھ نے وفا
محبتوں میں بانٹ دی
وہ اک اداس شخص تھا
وہ جو جہاد بن گیا
تو خواہشات جل گئی
وہ مرمری بدن کی بو
جو بارشوں کے ماہ میں
کہیں سے آج آ گئی
اداسیاں بڑھا گئی

وہ شخص جو ادیب تھا
وہ اس جہاں کا دیپ تھا
اسے تھکا رہی تھی پر
مساعفتوں کی عجلتیں
کسیا دیار غیر میر
اسے ضرورتیں تھی پر
ضرورتوں کے دم گھٹے
کہ دام دل ہی بڑھ گیا
وہ اک حسین شخص تھا
وہ اس جہاں سے اڑھ گیا

اسامہ جمشید
فجر سے پہلے 30 اگست 2017​
 
Top