آصف شفیع
محفلین
سعداللہ شاہ صاحب کی ایک غزل احباب کی نذر۔
وہ ایک یارِ طرحدار بھی ضروری تھا
اور اس کی سمت سے انکار بھی ضروری تھا
ہماری آنکھ میں آئے تھے دفعتا آنسو
ہوا تھا عشق تو اظہار بھی ضروری تھا
چٹان چوٹ پہ چنگاریاں دکھانے لگی
مگر تراشنا شہکار بھی ضروری تھا
تمہارے کام کے لمحوں کے درمیان کہیں
ہم ایسا لمحہء بیکار بھی ضروری تھا
ہمارے دل میں نہ آتے تو پھر کہاں جاتے
بھٹکتے خوابوں کو گھر بار بھی ضروری تھا
اے سعد اس کو محبت نہیں عقیدت تھی
گناہگار ہوں، اقرار بھی ضروری تھا
غزل
وہ ایک یارِ طرحدار بھی ضروری تھا
اور اس کی سمت سے انکار بھی ضروری تھا
ہماری آنکھ میں آئے تھے دفعتا آنسو
ہوا تھا عشق تو اظہار بھی ضروری تھا
چٹان چوٹ پہ چنگاریاں دکھانے لگی
مگر تراشنا شہکار بھی ضروری تھا
تمہارے کام کے لمحوں کے درمیان کہیں
ہم ایسا لمحہء بیکار بھی ضروری تھا
ہمارے دل میں نہ آتے تو پھر کہاں جاتے
بھٹکتے خوابوں کو گھر بار بھی ضروری تھا
اے سعد اس کو محبت نہیں عقیدت تھی
گناہگار ہوں، اقرار بھی ضروری تھا