وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں۔۔۔۔!!!!!!!

اللہ تعالی قران مجید میں ارشاد فرماتے ہیں۔۔جسکا م مفہوم کچھ اسطرح سے ہے۔

“اے لوگو جوایمان لائے ہو، وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں“

یہ آیت ہمیں انسانی زندگی کی ایسے بہت سے گوشوں کو چھیڑتی نظرآتی ہے، جہاں عاط طور پر فطرت انسانی سے متاثر ہوکر ہم خطاکربیٹھتے ہیں۔قول و دعمل کا تضاد ویسے تو کئی معاملوں م یں نظر آسکتا ہے، لیکن خاص طور پر ریلیشنز کا معاملہ ایسا ہے کہ نے مغرب سے بہت سی ایسی چیزوں کو اڈاپت کیا ہے جو کہ بنیادی طور پر انہوں نے اسلام سے ہی اخذ کی ہوگی، لین ہمیں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ہم خود سے قران اور احادث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تعلیمات کو سمجھ کر اسکو اپنےاندر جذب کرنے کی کوشش کریں۔

ریلیشنز بہت ہی بڑاچیپٹر ہے، یہ صرف بہن بھائی، ماں، باپ رشتہ دار، اور خونی رشتوں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ ساری نوع انسانی سے ہمارا کسی نہ کسی انداز میں ریلیشن بن ہی جاتا ہئے۔کیونکہ انسان کو سوشل اینیمل کہا گیا ہے، اور وہ مجرد زندگی گذار ہی نہیں سکتا۔

زندگی کے ہر موڑ پر جب ہم کسی سے بھی لنکڈہوتے ہیں، ہمیں چند اخلاقیات کو ضرور مد نظر رکھنا ہوتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ جن سے ہمارے مفادات عامہ وخاصہ ہوں وہاں ہم ہم سارے اخلاقیات کو گھول کر پینے کی کوشش کریں، اور عام طور پر نوع انسانی سے قدم قدم پر لنک ہونے کی اشکال ہمارے لئے ، موقع ، محٌ اور مناسبت ، حیثیت اووات ، لیول ، پیشہ ، تعلیم، مادہ پرستی، اور ہزارہا اقسام کی ڈپلومیسیز اور حکمتیں کارفرما ہوجائیں۔۔بہرحال یہ ایک بہت ہی بڑی آزمائش ہے۔

پروفیشنل ماحول میں ہم ہر قسم کے پروٹوکولز کی نہ چاہتے ہوئے بھی عزت کرجاتے ہیںَ بلکہ مصنوعی مسکراہٹ تو آفسس سے سسرال میں اور کہیں کہیں احباب ورشتہ داروں میں بھی ہماری شناخت بن چکی ہے، جبکہ ہم ہمارے گھر پڑوس، خاندان ، سوسائیٹی ، مارکٹ اور ایسی وہ تمام جگہیں، جہاں ہم نہ چاہتے ہوں ہمارا رویہ سردمہری کا شکار ہوجاتا ہے۔

قران ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ وہ بات کہتے کویں ہو جہ کرتے نہیں، آفسس میں ہم بپلک ریلیشنز پر بحث کرتے کرتے یک سے بڑھکر ایک سلائل سے دوسروں کو قائل کرانے کی کوشش کرتے ہیں، کہ مسکراہٹ، اخلاق، رویہ ، برتاو، اٹی ٹیوڈ ، کتنا معنی رکھتا ہے، اور وہی ہم جب اس محدود مفاد کے ماحول سے ہٹ جاتے ہیں تو ہم پر پھر وہی ریسرونیس اور مصنوعیت کی چادر تن جاتی ہے، فرمایا گیا تھا، کہ اے لوگو وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں۔ہم باڈی لینگویج کی بات کرتے ہیں، کہ ہزاروں الفاظ سے وہ کام نہیں ہوتا جو ایک ایکسپریشن کرجاتا ہے، زبانی ور پر اپنے مفاد کے لئے قدم قدم پر، لکچرز اور اصول و ضوابط کی باتیں کرنے والے ہم پروفیشنلز جب اپنے پڑوس اور خاندان یا محلہ او سوسائیٹی میں اور وہ مقام پر جہاں نظر ڈالتے ہیں تو وہاں اگر ہمیں اپنی حیثیت سے کم لوگ نظر آئیں تب ہماری نظر پھرنے لگتی ہے، یہ بات مانیں یا نہیں ایک حقیقت ہے لیکن کیا ہمیں قران یہی تعلیم دیتا ہے۔۔۔۔؟! اور کیا ہمیں حضور پاک صلی اللہ وعلیہ وسلم کی حیات مقدسہ میں ہمیں خود کو چیک کرنے کا کبھی موقعہ ملے گا، جنکے بارے مٰں قران میں فرمایا گیا، مفہوم یہ ہے کہ بے شک نبی پاک، اخلاق کے انہائی اعلی مقام پر فائز ہیں۔۔۔

جبکہ ہم کئی ایک چہروں کے ساتھ چل کر جب اپنا چہرہ بھی بھول جاتے ہیں اپنا اصل روپ گم کردیتے ہیں، تب ہماری پرسنل لائف بھی بے مزہ اور مصنوعی ہوکر رہ جاتی ہے۔ہم اسکا مشاہدہ اپنے آس پاس بھی کرسکتے ہیں، جہاں ظاہری طور پر تو بہت کچھ نظر آتا ہے لیکن تھوڑا قریب ہوجائیں تو تعفن سا آنے لگے۔۔۔۔!اللہ ہمیں نیک توفیق دے۔۔آمین
 
Top