وہ بزم کون سی ہے کہ زیر و زبر نہ ہو (غزل ) اختر عثمان

واجد عمران

محفلین
وہ بزم کون سی ہے کہ زیر و زبر نہ ہو !
دِل میں طنابِ خیمئہ لیلیٰ تو ورنہ ہو

یہ کارِ عشق بھی ہے عجب کارِ ناتمام
سمجھیں کہ ہورہا ہے مگر عمر بھر نہ ہو

اِک دشتِ بے دِلی میں لہو بولنے لگے
ایسے میں ایک خواب کہ تُو ہو ، مگر نہ ہو

چہر ے پہ سائے میں بھی خراشیں دکھائی دیں
آئینہء حیات پہ اِتنی نظر نہ ہو

اک آستاں کہ جس پہ ابد تک پڑے رہیں
اک گلستاں کہ جس میں صبا کا گُزر نہ ہو

مٹی تغارچوں میں پڑی سوکھتی رہے
پیکر تراشنے کے لئے کوزہ گر نہ ہو

اک یادِ خوش جمال جوازِ حیات ہے
اک محورِ خیال ہے یہ بھی اگر نہ ہو

اک لفظ جس کی لَو میں دمکتا رہے دماغ
اک شعر جس کی گونج کہیں پیشتر نہ ہو

ایسا بھی کیا کہ یاد لہو میں گُھلی رہے
ایسا بھی کیا کہ عمرِ گزشتہ بسر نہ ہو

یوں خطِ ہجر کھینچیے اپنے اور اُس کے بیچ
دونوں طرف کی سانس اِدھر سے اُدھر نہ ہو

اک شام جس میں دِل کا سبوچہ بھرا رہے
اک نام جس میں درد تو ہو ، اِس قدر نہ ہو

شام آئے اور گھر کے لئے دِل مچل اُٹھے
شام آئے اور دِل کے لئے کوئی گھر نہ ہو
انتخاب :ابد تاب
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اِک دشتِ بے دِلی میں لہو بولنے لگے
ایسے میں ایک خواب کہ تُو ہو، مگر نہ ہو

یوں خطِ ہجر کھینچیے اپنے اور اُس کے بیچ
دونوں طرف کی سانس اِدھر سے اُدھر نہ ہو

اک شام جس میں دِل کا سبوچہ بھرا رہے
اک نام جس میں درد تو ہو، اِس قدر نہ ہو

.......
مٹی تغارچوں میں پڑی سوکھتی رہے
پیکر تراشنے کے لئے کوزہ گر نہ ہو

اک یادِ خوش جمال جوازِ حیات ہے
اک محورِ خیال ہے یہ بھی اگر نہ ہو

......
ایک سے بڑھ کر ایک اشعار ہیں. واہ واہ
 
Top