ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
وہ بھی بدل کے رنگ فضاؤں میں ڈھل گیا
مٹی کا آدمی تھا ، ہواؤں میں ڈھل گیا
لفظوں سے تھا بنا ہوا شاید وہ شخص بھی
اک غم ملا تو کیسی صداؤں میں ڈھل گیا
خوفِ شکستِ عشق بنا ہر درد کا علاج
اک زہر تھا جو کتنی دواؤں میں ڈھل گیا
سینے میں جب جلالیا شعلہ چراغ نے
مٹی کا ٹھیکرا تھا ، شعاعوں میں ڈھل گیا
مجھ کو تو یاد اُس کے خدوخال بھی نہیں
دیکھا مجھے تو حسن اداؤں میں ڈھل گیا
بکھرا تو بن گیا وہ دھنک آسمان پر
سمٹا تو پھول جیسی قباؤں میں ڈھل گیا
ہم جانتے ہیں ایسا تو بالکل نہ تھا ظہیر
جب سے ملا ہے تم سے وفاؤں میں ڈھل گیا
ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۳
مٹی کا آدمی تھا ، ہواؤں میں ڈھل گیا
لفظوں سے تھا بنا ہوا شاید وہ شخص بھی
اک غم ملا تو کیسی صداؤں میں ڈھل گیا
خوفِ شکستِ عشق بنا ہر درد کا علاج
اک زہر تھا جو کتنی دواؤں میں ڈھل گیا
سینے میں جب جلالیا شعلہ چراغ نے
مٹی کا ٹھیکرا تھا ، شعاعوں میں ڈھل گیا
مجھ کو تو یاد اُس کے خدوخال بھی نہیں
دیکھا مجھے تو حسن اداؤں میں ڈھل گیا
بکھرا تو بن گیا وہ دھنک آسمان پر
سمٹا تو پھول جیسی قباؤں میں ڈھل گیا
ہم جانتے ہیں ایسا تو بالکل نہ تھا ظہیر
جب سے ملا ہے تم سے وفاؤں میں ڈھل گیا
ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۳