وہ بھی نہیں

رشید حسرت

محفلین
پناہ دے گا، کوئی سائباں تو وہ بھی نہِیں
ہمیں فنا ہے مگر جاوِداں تو وہ بھی نہِیں


ہمارے پیار کی ناؤ پھنسی ہے بِیچ بھن٘ور
بچا کے لائے کوئی بادباں تو وہ بھی نہِیں

جو سچ کہیں تو خزاں اوڑھ کے بھی خُوش ہیں بہُت
نہِیں اُجاڑ مگر گُلسِتاں تو وہ بھی نہِیں

جہاں تلک بھی گئی آنکھ رِند بیٹھے تھے
نوازے سب کو جو پیرِ مُغاں تو وہ بھی نہِیں

تُمہارا پیار تھا مشرُوط لوٹنے سے مِرے
نِبھاؤ عہد ابھی درمیاں تو "وہ" بھی نہِیں

نظر میں ہو تو کہِیں ہم پلٹ کے نا دیکھیں
کِسی بہار کا ایسا سماں تو وہ بھی نہِیں

ہمارا نام حوالہ ہی اِس میں رنگ رہا
وگرنہ ایسی کوئی داستاں تو وہ بھی نہِیں

جو ایک شخص تُمہیں شاعری میں دِکھتا ہے
شریکِ شعر سہی ترجماں تو وہ بھی نہِیں

رشِید کی بھلا توصِیف کیا ضرُوری ہے؟
کرے ہے شاعری جادُو بیاں تو وہ بھی نہِیں


رشِید حسرت
 
Top