وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو بُرا اُس کو ( نصیر ترابی )

ظفری

لائبریرین
وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو بُرا اُس کو
کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اُس کو

نظر نہ آئے تو اُس کی تلاش میں رہنا
کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اُس کو

وہ سادہ خُو تھا زمانے کے خم سمجھتا کیا
ہوا کے ساتھ چلا لے اُڑی ہوا اُس کو

وہ اپنے بارے میں کتنا ہے خوش گماں دیکھو
جب اُس کو میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اُس کو

ابھی سے جانا بھی کیا اُ س کی کم خیالی پر
ابھی تو اور بہت ہوگا سوچنا اُس کو

اُسے یہ دُھن کہ مجھے کم سے کم اُداس رکھے
مری دعا کہ خدا دے یہ حوصلہ اُس کو

غزل میں تذکرہ اُس کا نہ کر نصیر کہ اب
بھلا چکا وہ تجھے ، تُو بھی بھول جا اُس کو

( نصیر ترابی )
 
Top