Latif Usman
محفلین
اسپین بولدک: محب اللہ گلابی رنگت، بڑی آنکھوں، مسکراتے چہرے اور آنکھوں میں کِک باکسر بننے کا خواب سجائے ایک عام سا افغانی نظر آتا تھا، لیکن یہ 15 سالہ لڑکا، طالبان کے شکنجے میں آکر اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ محب اللہ نے 2014 میں ضلعی گورنر آفس کے باہر خودکش حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا، جس کے بعد اسے جنوبی قندھار میں نابالغوں کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ محب اللہ کا کہنا تھا کہ اُسے یہ تلقین کی گئی تھی کہ اس 'شہادت' سے وہ سیدھا جنت میں جائے گا، جہاں وہ حوروں کے ساتھ دودھ اور شہد کی نہروں میں بیٹھے گا۔ بچوں کو 'انسانی میزائل' کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کے چھوٹے جسم کی وجہ سے نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے اور ان کی آسانی سے برین واشنگ کی جاسکتی ہے۔ بچوں کو اسکول اور گھر میں اپنے والدین کے ساتھ ہونا چاہیئے اور میزائل کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے ۔ محب اللہ کے خاندان کا سراغ لگایا جو اسپین بولدک کے علاقے میں مٹی سے بنے ایک گھر میں رہائش پذیر ہے اور نقاب کے پیچھے نم آنکھوں اور رندھی ہوئی آواز میں محب اللہ کی والدہ نے کہا، 'وہ تو بلیوں سے ڈرتا تھا، وہ خودکش بمبارکیسے بن گیا۔
http://www.dawnnews.tv/news/1036182
http://www.dawnnews.tv/news/1036182