نور وجدان
لائبریرین
عدم کی مٹی کسے نصیب ہوتی ہے ۔ انسان جب اپنی بساط سے بڑھ کے محبوب کا ہوجاتا ہے ۔ جب اس کے اندر جذب ِ حقیقی پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی قدموں کی زنجیروں سے پیدا ہونے والی آواز میں موسیقیت گونج اٹھتی ہے ۔ جب خواب میں اس کو رُخِ یار نصیب ہوتا ہے اور اس مست نینوں کے پیچھے پنچھی روح اپنا آپ قربان کردیتی ہے ۔ عشق کی اصل کیا ہے ۔ اس بات کو سُوچنے بیٹھیں تو سوچیں کیا صرف قُربانی ہے ؟ عشق ایسا لافانی جذبہ ہے ، جس روح میں پیدا ہوجائے اس کو ابدیت کا جام پلا دیتا ہے ۔ زُلیخا کو جنابِ یوسف ؑ سے عشق ہوا اور اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے ۔ سیف الملوک کو عشق ہوا تو بادشاہت چھوڑ دالی ۔ جو روح مجاز کی محبت کا مزہ پاتی ہے ، اس پر اصل حقائق کھلتے ہیں کہ اس کی ہجرت سے پیدا ہونے والا سوز ، درد اور الم ۔۔۔۔۔ سب اس کو حقیقی ہجرت کی یاد دلاتی ہے ۔ اس لیے جب کوئی مسافر وطن سے روانہ ہوتا ہے تو اس پر ہجرت کا درد بخوبی عیاں ہوجاتا ہے ۔
جو ارواح جذب پیدا کرلیں یا.ان.کو.عطا ہو جائے ان کا اضطراب ان کو حقیقت کے روبرو لا کھڑا کرتا ہےہے اور اسی اضطراب پر شاید محبوب خوش ہوتا ہوگا ، کہیے گا
دیکھو! .
میرے وصل کی تڑپ میں یہ میرا بندہ بے قرار ہے ..
.دیکھو ...میری.چاہت کا.نشہ.ہے ...
دیکھو مجھے پہچانتی ہے ...
کیا.اچھا ہو آخرت کو بھی پہچان جاؤں ...
اصل.کیا ہے ...؟
.مولا..فرق کیا.ہے؟
تضاد تو مٹی ہے ..
.مٹی کی مجال.کیا؟
مولا کیامجال.؟
مولا پھر واصل بالحق کردے۔
حقیقت کے قریب انسان جوں جُوں ہوتا جاتا ہے. بادل برستے ہیں زمین سیراب ہوجاتی ہے ....نعمت ہے۔۔ان آنسوؤں کا جمع ہونا جو محبوب کی یاد میں بہائے جائیں کہ یہی رحمت کا ابر بن جاتے ہیں۔جب سے مجھ پرآپ کا کرم ہوا ہے ..زندگی نے مجھے درخت کی گھنی چھاؤں میں بٹھا دیا ....یار کا ہجر بھی یار سے منسوب ہے کہ وصل کو بھی ہجرت سے نسبت ہے ۔ انسان اسی شش و پنج میں سوالی بنتے سوال سنتا ہے اور جواب دیتا ہے
کیا تم مفلس ہو؟
ارے نہیں میں عشق میں ہوں ...
تم اضطراب میں ہو؟
ارے نہیں میں یاد میں محو ہوں ..
تم کیا.چاہتی.ہو
کیا بہتر جانتے ہو آپ مولا .....
میں کیا چاہتی ہوں .......
آجا! پاس ....
کیسے؟
جیسے جیسے محبوب پاس بلاتا ہے، یاد کرتا ہے ..مستی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انسان سُدھ بدھ کھو دیتا ہے ۔ اس کی آرزو میں جنون کی خواہش رہتی ہے کہ ہوش میں رکھا کیا ہے ۔ سب کچھ تو اسی عشق کی شعلے کی پیداوار ہے ۔آئنے ہوں یا عکس ہوں؟ میں خود کا عکس دیکھتی ہوں اور خود کو آئنے میں پاتی ہوں مگر آئنے میں یار کا جلوہ ہوتا ہے .....اس کے پاس بیٹھی ہوں وہ میرے پاس ہے ...محبوب مجھے دیکھے اور اپنی ہوش نہ رہے ...اس کو دیکھو ں آئنے میں اور میں خود سنورتی جاؤں ....مجھے بتاتا جائے ...سمت اس کی جانب کی رہے بس ۔۔!
جب زبان پر ذکرِ یار آتا ہے
دل میں پھر نقشِ یار آتا ہے
روح جب مسرور ہوتی ہے
دل کو مستی ِ خمار ملتا ہے
گنبد کی سنہری جالی کا تصور
آنکھوں میں پھر بار بار آتا ہے
دل کے صحرا میں بارش سے
گل کھلتے ہیں ، صبا چلتی ہے
موسم پھر سدا بہار کا رہتا ہے
وہ جگہ جہاں محبوب رہتا ہو. وہ کتنی خوبصورت جگہ ہوتی ہے. ہم تصورات میں خود کو اڑتا پائیں گے ..اک نئے جہاں پہنچیں گے. جس کا اس جہاں سے کوئی تعلق نہ ہوگا. وہ جہاں .....جہاں چرند پرند نہ جا سکیں، مٹی کی مجال کیا ہوگی؟ روشنی کی مثال ہے نا...انسان روشنی بن جائے اور روشنی سے مل جائے ....روشن ہو جائے اور تفرقہ مٹ جائے ...وہ عہد یاد آتا ہے جب میں تمام اراواح کے ساتھ کھڑی تھی اور مجھے جب اصل سے جدا کیا گیا تو پوچھا گیا کون ہے خالق تمھارا خالق کون ہے ؟...میں نے کہا جس نے مجھے تخلیق کیا ....جس نے میری مٹی میں مجھے پھونکا گیااور کہا! مجھے پھونکا اور جان دی ۔
خاکی!
یہ یاد رکھنا کہ تمھیں جب جب کوئی بات، منظر، کوئ جگہ لگے کہ یہ ہوچکی ہے تو اس کو اک نشانی جاننا کہ تم کو میں نے تخلیق کرتے وقت یاد کے تار ساتھ جوڑ دیے تھے ...جب جب تجھے وہ تار جڑے ملتے ہیں تو ساز کی طرح بجتا ہے .....
خاکی تو کثیف ہے ....مگر تیری خلق احسن الخالقین پر ہے ...دیکھ تضاد ...میں نے نورکو خاک کے ساتھ ملایا ...تاکہ جان لو کہ تم مجھے کتنا یاد رکھے ہوئے ہو اور میں تمھیں کتنا یاد رکھے ہوئے ہوں ۔۔۔۔!
تیری پہچان کہ میری پہچان؟
اس پہچان میں کیسا ہیجان؟
ساز، تار مل کے بجیں گے
مٹ جائیں گے اب سب ارمان.
بلا لیجیے پاس اپنے مجھے
میرے مولا! تجھ پہ میں قربان
میں ذکر میں نہیں مگر پھر بھی مولا...
ہجر کے مار ے پھٹتی ہے شریان
زندگی کی اوقات کیا ہے میرے سامنے
کیوں نفس بنا میرا پھر تا ہے شیطان
بس تیری خوشبو سے من کا محل سج رہا ہے
دل میں مچل رہے ہیں جانے کتنے طوفان
جب تڑپ اٹھے روح
چمک اٹھے جب دل
فلک کرے سجدے
زمین کرے ہے شکر
یہ عہد انسانی نہیں
یہ عہد الہی کی نشانی ہے
رقم میری پیشانی پہ ہے
میں نے پایا تجھ کو انسان میں
میں نے دیکھا تجھ کو اشجار میں
تیرا جمال کانظارہ بہار ہے
تیری ہجر کی نشانی خزاں ہے
تجھے سنا پرندوں کی تسبیح میں
اللہ.ھو کی بولی بول
میرا ساتھ رشتہ جوڑ ...
مجھے اپنا ساتھی سمجھ
میں یارا تیرا پرانا ہوں
مجھے پانا کتنا سہانا ہے
میرا ادب تیری نشان ہے
ت .شاہد ہے مگر انسان ہے
میں معبود تو عبد میرا
میں الہ تیرا .....
کون تجھ میں سوا میرے
عشق کی ابتدا میں انسان کے دل میں کیا ہوتا ہے ۔ اپنا تصور دل میں گھومنا شروع ہوجاتا ہے ۔ میں ہی حقیقت ہوں مگر ایک پنجرے میں قید ۔۔میں ایک پرندہ ہوں جس کو پرواز ملی ۔۔۔۔میں شہباز ہوں مگر پھر بھی مجبور ہوں ، میں اڑتی ہوں ، پھرتی ہوں مگر قید رہتی ہوں ۔۔کب دور ہوگی یہ قید ؟ روح جب دیار اصل میں مقیم ہوگی تو سب حجاب اٹھتے جائیں گے ، اس جگہ جہاں سب کچھ اصل ہوگا اور اصل ، اصل کو دیکھتے اپنی پہچان کرسکے گا۔۔۔۔جس نے اپنی پہچان کرلی ، درحقیقت اس نے یزدان کی حقیقت جان لی ہے ۔۔۔وہ کن فکاں ہستی ہے ، جس نے ساز جسم میں اپنے اسرار چھپا رکھے ہیں ، وہ بس مطرب کی مانند گیت کی نئی دھنیں دیتا جاتا ہے ۔۔۔نور۔۔۔۔۔لو ! یہ دھن تیرے لیے ہے ، اس کو تو سُنا ہوں ۔۔۔۔
میں ؟
میں کہ گم اس کی بارگاہ میں۔
میں ریاکار ہوں مگر کتنا کرم ہے مجھ پر۔
میں با ادب ہوں ، سر اٹھاؤں تو کچھ کہوں۔
مجھے اذن گفتگو مل بھی جائے تو۔
آداب گفتگو تو نہیں ہے
کوئی تو ہو جو مجھے بتادے کہ میں نے اب تیرے پاس کھڑے زندگی کیسے گزارنی ہے ؟ میری روح تیرے پاس ہے اور جسم مادی ، مادی دنیا میں ۔۔۔۔۔۔میرا دل تجھے دیکھتا ہوں اور میں دنیا میں خود کو دیکھتی ہوں کہ نظر یار کی مجھ پر ہے ۔۔۔۔یار نے کرم کردیا ہے اور میں اس کے پاس کھڑی ہوں یا بیٹھی ہوں ، بیٹھی ہوں کہ یا جھوم رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میں نہیں جانتی ہوں ۔۔۔۔۔نہ کبھی جان سکتی ہوں ۔
۔
وہ تو حقیقت کو حقیقت سے ملا دیتا ہے ۔
جام سب کو کچھ اس طرح پلا دیتا ہے ۔۔۔
نشہ مئے سرور کا جاتا نہیں پھر کبھی
ہر روح کو مئے خوار بنا دیتا ہے
اس کی محفل میں جس کو ملے حضوری
رواں رواں پھر روشنی جہاں کو دیتا ہے
یہ کون میرے دل میں مقیم مجھ میں ہی
دل ِ مضطر کے اضطراب کو ہوا دیتا ہے
میں نے اس کو قریب سے دیکھا تو جانا
وہ تو ہر آئنے کو اپنا جلوہ کرا دیتا ہے
اس کو دیکھتے میں خود سنورتی جاتی ہوں
آئنہ کو آئنہ کچھ اس طرح ملا دیتا ہے
وصل کی مئے ابدی جس کو بھی ملے
ابتلا میں مبتلا میں بھی مسکرا دیتا ہے
خود کے گنبد میں کعبہ نور کو دیکھ کے
سجدہ شکر میری ہر رواں کرتا ہے
کبھی سبز گنبد تو کبھی حرم کعبہ بنتا ہے
جلوہ حق میں یار خدا جو دکھتا ہے ۔۔۔
جو ارواح جذب پیدا کرلیں یا.ان.کو.عطا ہو جائے ان کا اضطراب ان کو حقیقت کے روبرو لا کھڑا کرتا ہےہے اور اسی اضطراب پر شاید محبوب خوش ہوتا ہوگا ، کہیے گا
دیکھو! .
میرے وصل کی تڑپ میں یہ میرا بندہ بے قرار ہے ..
.دیکھو ...میری.چاہت کا.نشہ.ہے ...
دیکھو مجھے پہچانتی ہے ...
کیا.اچھا ہو آخرت کو بھی پہچان جاؤں ...
اصل.کیا ہے ...؟
.مولا..فرق کیا.ہے؟
تضاد تو مٹی ہے ..
.مٹی کی مجال.کیا؟
مولا کیامجال.؟
مولا پھر واصل بالحق کردے۔
حقیقت کے قریب انسان جوں جُوں ہوتا جاتا ہے. بادل برستے ہیں زمین سیراب ہوجاتی ہے ....نعمت ہے۔۔ان آنسوؤں کا جمع ہونا جو محبوب کی یاد میں بہائے جائیں کہ یہی رحمت کا ابر بن جاتے ہیں۔جب سے مجھ پرآپ کا کرم ہوا ہے ..زندگی نے مجھے درخت کی گھنی چھاؤں میں بٹھا دیا ....یار کا ہجر بھی یار سے منسوب ہے کہ وصل کو بھی ہجرت سے نسبت ہے ۔ انسان اسی شش و پنج میں سوالی بنتے سوال سنتا ہے اور جواب دیتا ہے
کیا تم مفلس ہو؟
ارے نہیں میں عشق میں ہوں ...
تم اضطراب میں ہو؟
ارے نہیں میں یاد میں محو ہوں ..
تم کیا.چاہتی.ہو
کیا بہتر جانتے ہو آپ مولا .....
میں کیا چاہتی ہوں .......
آجا! پاس ....
کیسے؟
جیسے جیسے محبوب پاس بلاتا ہے، یاد کرتا ہے ..مستی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انسان سُدھ بدھ کھو دیتا ہے ۔ اس کی آرزو میں جنون کی خواہش رہتی ہے کہ ہوش میں رکھا کیا ہے ۔ سب کچھ تو اسی عشق کی شعلے کی پیداوار ہے ۔آئنے ہوں یا عکس ہوں؟ میں خود کا عکس دیکھتی ہوں اور خود کو آئنے میں پاتی ہوں مگر آئنے میں یار کا جلوہ ہوتا ہے .....اس کے پاس بیٹھی ہوں وہ میرے پاس ہے ...محبوب مجھے دیکھے اور اپنی ہوش نہ رہے ...اس کو دیکھو ں آئنے میں اور میں خود سنورتی جاؤں ....مجھے بتاتا جائے ...سمت اس کی جانب کی رہے بس ۔۔!
جب زبان پر ذکرِ یار آتا ہے
دل میں پھر نقشِ یار آتا ہے
روح جب مسرور ہوتی ہے
دل کو مستی ِ خمار ملتا ہے
گنبد کی سنہری جالی کا تصور
آنکھوں میں پھر بار بار آتا ہے
دل کے صحرا میں بارش سے
گل کھلتے ہیں ، صبا چلتی ہے
موسم پھر سدا بہار کا رہتا ہے
وہ جگہ جہاں محبوب رہتا ہو. وہ کتنی خوبصورت جگہ ہوتی ہے. ہم تصورات میں خود کو اڑتا پائیں گے ..اک نئے جہاں پہنچیں گے. جس کا اس جہاں سے کوئی تعلق نہ ہوگا. وہ جہاں .....جہاں چرند پرند نہ جا سکیں، مٹی کی مجال کیا ہوگی؟ روشنی کی مثال ہے نا...انسان روشنی بن جائے اور روشنی سے مل جائے ....روشن ہو جائے اور تفرقہ مٹ جائے ...وہ عہد یاد آتا ہے جب میں تمام اراواح کے ساتھ کھڑی تھی اور مجھے جب اصل سے جدا کیا گیا تو پوچھا گیا کون ہے خالق تمھارا خالق کون ہے ؟...میں نے کہا جس نے مجھے تخلیق کیا ....جس نے میری مٹی میں مجھے پھونکا گیااور کہا! مجھے پھونکا اور جان دی ۔
خاکی!
یہ یاد رکھنا کہ تمھیں جب جب کوئی بات، منظر، کوئ جگہ لگے کہ یہ ہوچکی ہے تو اس کو اک نشانی جاننا کہ تم کو میں نے تخلیق کرتے وقت یاد کے تار ساتھ جوڑ دیے تھے ...جب جب تجھے وہ تار جڑے ملتے ہیں تو ساز کی طرح بجتا ہے .....
خاکی تو کثیف ہے ....مگر تیری خلق احسن الخالقین پر ہے ...دیکھ تضاد ...میں نے نورکو خاک کے ساتھ ملایا ...تاکہ جان لو کہ تم مجھے کتنا یاد رکھے ہوئے ہو اور میں تمھیں کتنا یاد رکھے ہوئے ہوں ۔۔۔۔!
تیری پہچان کہ میری پہچان؟
اس پہچان میں کیسا ہیجان؟
ساز، تار مل کے بجیں گے
مٹ جائیں گے اب سب ارمان.
بلا لیجیے پاس اپنے مجھے
میرے مولا! تجھ پہ میں قربان
میں ذکر میں نہیں مگر پھر بھی مولا...
ہجر کے مار ے پھٹتی ہے شریان
زندگی کی اوقات کیا ہے میرے سامنے
کیوں نفس بنا میرا پھر تا ہے شیطان
بس تیری خوشبو سے من کا محل سج رہا ہے
دل میں مچل رہے ہیں جانے کتنے طوفان
جب تڑپ اٹھے روح
چمک اٹھے جب دل
فلک کرے سجدے
زمین کرے ہے شکر
یہ عہد انسانی نہیں
یہ عہد الہی کی نشانی ہے
رقم میری پیشانی پہ ہے
میں نے پایا تجھ کو انسان میں
میں نے دیکھا تجھ کو اشجار میں
تیرا جمال کانظارہ بہار ہے
تیری ہجر کی نشانی خزاں ہے
تجھے سنا پرندوں کی تسبیح میں
اللہ.ھو کی بولی بول
میرا ساتھ رشتہ جوڑ ...
مجھے اپنا ساتھی سمجھ
میں یارا تیرا پرانا ہوں
مجھے پانا کتنا سہانا ہے
میرا ادب تیری نشان ہے
ت .شاہد ہے مگر انسان ہے
میں معبود تو عبد میرا
میں الہ تیرا .....
کون تجھ میں سوا میرے
عشق کی ابتدا میں انسان کے دل میں کیا ہوتا ہے ۔ اپنا تصور دل میں گھومنا شروع ہوجاتا ہے ۔ میں ہی حقیقت ہوں مگر ایک پنجرے میں قید ۔۔میں ایک پرندہ ہوں جس کو پرواز ملی ۔۔۔۔میں شہباز ہوں مگر پھر بھی مجبور ہوں ، میں اڑتی ہوں ، پھرتی ہوں مگر قید رہتی ہوں ۔۔کب دور ہوگی یہ قید ؟ روح جب دیار اصل میں مقیم ہوگی تو سب حجاب اٹھتے جائیں گے ، اس جگہ جہاں سب کچھ اصل ہوگا اور اصل ، اصل کو دیکھتے اپنی پہچان کرسکے گا۔۔۔۔جس نے اپنی پہچان کرلی ، درحقیقت اس نے یزدان کی حقیقت جان لی ہے ۔۔۔وہ کن فکاں ہستی ہے ، جس نے ساز جسم میں اپنے اسرار چھپا رکھے ہیں ، وہ بس مطرب کی مانند گیت کی نئی دھنیں دیتا جاتا ہے ۔۔۔نور۔۔۔۔۔لو ! یہ دھن تیرے لیے ہے ، اس کو تو سُنا ہوں ۔۔۔۔
میں ؟
میں کہ گم اس کی بارگاہ میں۔
میں ریاکار ہوں مگر کتنا کرم ہے مجھ پر۔
میں با ادب ہوں ، سر اٹھاؤں تو کچھ کہوں۔
مجھے اذن گفتگو مل بھی جائے تو۔
آداب گفتگو تو نہیں ہے
کوئی تو ہو جو مجھے بتادے کہ میں نے اب تیرے پاس کھڑے زندگی کیسے گزارنی ہے ؟ میری روح تیرے پاس ہے اور جسم مادی ، مادی دنیا میں ۔۔۔۔۔۔میرا دل تجھے دیکھتا ہوں اور میں دنیا میں خود کو دیکھتی ہوں کہ نظر یار کی مجھ پر ہے ۔۔۔۔یار نے کرم کردیا ہے اور میں اس کے پاس کھڑی ہوں یا بیٹھی ہوں ، بیٹھی ہوں کہ یا جھوم رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میں نہیں جانتی ہوں ۔۔۔۔۔نہ کبھی جان سکتی ہوں ۔
۔
وہ تو حقیقت کو حقیقت سے ملا دیتا ہے ۔
جام سب کو کچھ اس طرح پلا دیتا ہے ۔۔۔
نشہ مئے سرور کا جاتا نہیں پھر کبھی
ہر روح کو مئے خوار بنا دیتا ہے
اس کی محفل میں جس کو ملے حضوری
رواں رواں پھر روشنی جہاں کو دیتا ہے
یہ کون میرے دل میں مقیم مجھ میں ہی
دل ِ مضطر کے اضطراب کو ہوا دیتا ہے
میں نے اس کو قریب سے دیکھا تو جانا
وہ تو ہر آئنے کو اپنا جلوہ کرا دیتا ہے
اس کو دیکھتے میں خود سنورتی جاتی ہوں
آئنہ کو آئنہ کچھ اس طرح ملا دیتا ہے
وصل کی مئے ابدی جس کو بھی ملے
ابتلا میں مبتلا میں بھی مسکرا دیتا ہے
خود کے گنبد میں کعبہ نور کو دیکھ کے
سجدہ شکر میری ہر رواں کرتا ہے
کبھی سبز گنبد تو کبھی حرم کعبہ بنتا ہے
جلوہ حق میں یار خدا جو دکھتا ہے ۔۔۔