وہ جب ملے تو نیا سا دکھائی دیتا ہے

جاسمن

لائبریرین
ایک غزل اصلاح کی منتظر

جمالِ یار بھی کیسا دکھائی دیتا ہے
کبھی چنداکبھی تارہ دکھائی دیتا ہے

یہی اِک بات اُسے منفرد بناتی ہے)
وہ جب ملے تو نیا سا دکھائی دیتا ہے

نہ دیکھو شکل بس آواز ہی سُنے جاؤ
یہ سودا ہجر کا سستا دکھائی دیتا ہے

پُکارتا ہوں تو وہ مُڑ کے دیکھتا ہی نہیں
وہ اپنے حسن سے آگاہ دکھائی دیتا ہے

مری نظر بھی عجب معجزے دکھاتی ہے
شبانِ ہجر میں سایہ دکھائی دیتا ہے

مرا فریب تو اِس بار ووٹ ہار گیا
مزاج شہر کا سچا دکھائی دیتا ہے

وہ میری آنکھ کا آنسو تھا پُر فسوں پیارے
جو تیری آنکھ سے بہتا دکھائی دیتا ہے

جو شب کی اوٹ سے چندا چمکتا رہتا ہے
دیارِ غیر میں اپنا دکھائی دیتا ہے

خُدا کی دید کے طالب چلو کہ ہم جھانکیں
وہ کوہِ طور پہ موسیٰ دکھائی دیتا ہے

درِ حبیب کی چوکھٹ پہ سر جھکا دو تو
وہ دل پہ ہاتھ سا رکھا دکھائی دیتا ہے

تری گلی کا وہ چہرہ جسے نہیں دیکھا
مجھے تو وہ بھی شناسا دکھائی دیتا ہے

جو شخص توڑ کے بندھن گیا تھا دعوے سے
یہ کیا وہی ہے جو آتا دکھائی دیتا ہے

ترے سِوا کہیں کوئی بھی تو مسجود نہیں
محبت کا یہی رستہ دکھائی دیتا ہے

ہم اپنی ذات میں اِ ک انجمن ہیں سمجھو تو
جہان سارے کا سارا دکھائی دیتا ہے

یہ دُنیا کس لیے اُس شخص کو پاگل سمجھتی ہے
جو اپنے آپ پہ ہنستا دکھائی دیتا ہے

جدائیاں ہوں اگر زیست کی مسافت میں
تو پھر جوان بھی بوڑھا دکھائی دیتا ہے

ہمارے ساتھ تو رہتا ہے اپنا غم ورنہ
ہر ایک شخص یاں تنہا دکھائی دیتا ہے

اور اُس کے سامنے کچھ بات ہی نہیں بنتی
یہ چاند اُس کا اِک سایا دکھائی دیتا ہے

مجھے یقین ہے جُوہی وہ مجھ کو ڈھونڈے گا
وہ جس کے ہاتھ میں تارا دکھائی دیتا ہے


(اس غزل میں ایک طرح مصرح ہے لیکن عرصہ ہوا تو معلوم نہیں ہو پارہا۔:)شاید وہ مصرح بھی اپنا دکھائی دیتا ہے۔:D)
 

الف عین

لائبریرین
کچھ اشعار بحر سے خارج ہو گئے ہیں۔ ویسے اچھی غزل ہے۔
جمالِ یار بھی کیسا دکھائی دیتا ہے
کبھی چنداکبھی تارہ دکھائی دیتا ہے
۔۔دوسرا مصرع وزن میں نہیں۔ اور الفاظ بدلنے کی کوشش کامیان بہیں ہو سکی۔
یہی اِک بات اُسے منفرد بناتی ہے)
وہ جب ملے تو نیا سا دکھائی دیتا ہے
۔۔پہلا مصرع یوں کر دو
یہ بات ہی تو اسے منفرد بناتی ہے
تو بحر میں درست ہو جائے گا۔

نہ دیکھو شکل بس آواز ہی سُنے جاؤ
یہ سودا ہجر کا سستا دکھائی دیتا ہے
۔۔پہلا مصرع خارج از بحر، اس کو یوں کیا جا سکتا ہے۔
نہ دیکھو شکل، سنے جاؤ بس وہی آواز

پُکارتا ہوں تو وہ مُڑ کے دیکھتا ہی نہیں
وہ اپنے حسن سے آگاہ دکھائی دیتا ہے
۔۔ آگاہ غلط قافیہ ہے۔ اس شعر کو نکال ہی دو۔

مری نظر بھی عجب معجزے دکھاتی ہے
شبانِ ہجر میں سایہ دکھائی دیتا ہے
۔۔درست

مرا فریب تو اِس بار ووٹ ہار گیا
مزاج شہر کا سچا دکھائی دیتا ہے
۔۔ درست

وہ میری آنکھ کا آنسو تھا پُر فسوں پیارے
جو تیری آنکھ سے بہتا دکھائی دیتا ہے
۔۔بحر درست۔ لیکن ’پیارے‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ ’پر سوز‘ کیا جا سکتا ہے۔

جو شب کی اوٹ سے چندا چمکتا رہتا ہے
دیارِ غیر میں اپنا دکھائی دیتا ہے
۔۔درست

خُدا کی دید کے طالب چلو کہ ہم جھانکیں
وہ کوہِ طور پہ موسیٰ دکھائی دیتا ہے
۔درست
درِ حبیب کی چوکھٹ پہ سر جھکا دو تو
وہ دل پہ ہاتھ سا رکھا دکھائی دیتا ہے
۔۔درست، لیکن بہتری کے لیے ’سر جھکا دو اگر‘ کر دو۔

تری گلی کا وہ چہرہ جسے نہیں دیکھا
مجھے تو وہ بھی شناسا دکھائی دیتا ہے
÷÷درست
جو شخص توڑ کے بندھن گیا تھا دعوے سے
یہ کیا وہی ہے جو آتا دکھائی دیتا ہے
÷÷ درست
ترے سِوا کہیں کوئی بھی تو مسجود نہیں
محبت کا یہی رستہ دکھائی دیتا ہے
÷÷دونوں مصرعے بحر میں نہیں ہیں۔ اس کو بھی نکال ہی دو
ہم اپنی ذات میں اِ ک انجمن ہیں سمجھو تو
جہان سارے کا سارا دکھائی دیتا ہے
۔۔ شعر سمجھ میں نہیں آیا۔ دو لختی کی کیفیت ہے۔
یہ دُنیا کس لیے اُس شخص کو پاگل سمجھتی ہے
جو اپنے آپ پہ ہنستا دکھائی دیتا ہے
۔۔پہلا مصرع خارج، یوں درست ہو سکتا ہے
یہ دنیا کس لیے پاگل اسے سمجھتی ہے

جدائیاں ہوں اگر زیست کی مسافت میں
تو پھر جوان بھی بوڑھا دکھائی دیتا ہے
۔۔درست
ہمارے ساتھ تو رہتا ہے اپنا غم ورنہ
ہر ایک شخص یاں تنہا دکھائی دیتا ہے
۔۔‘یاغ‘ اچھا نہی لگ رہا۔ اس کی جگہ ’ہی‘ کر دو تو درست ہو جائے۔
اور اُس کے سامنے کچھ بات ہی نہیں بنتی
یہ چاند اُس کا اِک سایا دکھائی دیتا ہے
۔۔دوسرا مصرع خارج، اسے یوں کرو۔
یہ چاند اس کا ہی سایہ۔۔۔۔

مجھے یقین ہے جُوہی وہ مجھ کو ڈھونڈے گا
وہ جس کے ہاتھ میں تارا دکھائی دیتا ہے
÷÷’جو ہی‘؟؟ کیا مراد ’جوں ہی‘ ہے۔ اس صورت میں شعر سمجھ میں نہیں آیا
 

جاسمن

لائبریرین
محترم استاد صاحب!
سب سے پہلے تو دعائیں۔جزاک اللہ!اتنا وقت دے کے میری تُکوں کو اشعار کا روپ دینے کی کوشش کی۔
اللہ آپ کو کامل صحت اور خوشیاں اور آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
مجھے یقین ہے جُوہی وہ مجھ کو ڈھونڈے گا
وہ جس کے ہاتھ میں تارا دکھائی دیتا ہے
÷÷’جو ہی‘؟؟ کیا مراد ’جوں ہی‘ ہے۔ اس صورت میں شعر سمجھ میں نہیں آیا
(ایہہ کی کہہ دتا استاد جی!
کسے ویلے "جُوہی" میرا تخلص ہوندا سی۔ بھراواں نے ایہنوں اُلٹا دتا۔۔۔۔تے مین چھڈ دتا۔
پر ایتھے تے استاد نیں۔)
محترم استاد !
یہ میرا تخلص تھا۔
 
کیا ہی کہنے ہماری آپا کے۔ توقع سے بڑھ کے لکھا آپ نے!
زبردست پہ ڈھیروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:):):)
تری گلی کا وہ چہرہ جسے نہیں دیکھا
مجھے تو وہ بھی شناسا دکھائی دیتا ہے

جو شخص توڑ کے بندھن گیا تھا دعوے سے
یہ کیا وہی ہے جو آتا دکھائی دیتا ہے
ہم اپنی ذات میں اِ ک انجمن ہیں سمجھو تو
جہان سارے کا سارا دکھائی دیتا ہے
جدائیاں ہوں اگر زیست کی مسافت میں
تو پھر جوان بھی بوڑھا دکھائی دیتا ہے
کتنے پیارے شعر ہیں۔ :in-love::in-love::in-love:
آپ کو لکھتے رہنا چاہیے۔ بےدھڑک ہو کر۔ تکنیکی معاملات خود بخود درست ہوتے چلے جائیں گے۔ آپ کے اشعار میں مجھے خیالات کی جو ندرت نظر آئی ہے وہ تکنیکی لحاظ سے درست کام کرنے والے لوگوں کے بس سے بہت باہر کی شے ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ! :):):)
 

جاسمن

لائبریرین
کیا ہی کہنے ہماری آپا کے۔ توقع سے بڑھ کے لکھا آپ نے!
زبردست پہ ڈھیروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:):):)
کتنے پیارے شعر ہیں۔ :in-love::in-love::in-love:
آپ کو لکھتے رہنا چاہیے۔ بےدھڑک ہو کر۔ تکنیکی معاملات خود بخود درست ہوتے چلے جائیں گے۔ آپ کے اشعار میں مجھے خیالات کی جو ندرت نظر آئی ہے وہ تکنیکی لحاظ سے درست کام کرنے والے لوگوں کے بس سے بہت باہر کی شے ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ! :):):)
بھائیوں کو بہنوں خصوصاََ آپاؤں کی ساری باتیں اچھی لگتی ہیں۔ کہیں پہ کچھ ناپسند بھی ہو تو وہ احتراماََ خاموش ہو جاتے ہیں۔ :)
اللہ آپ کو بہت خوشیاں دے۔آمین!
اس قدر زورداد(زوردار داد)پہ بہت شکریہ۔ شرمندہ ہو رہی ہوں۔ یہ بھی طالب علمی کے دور کی ہے۔مجھے لگ رہا ہے کہ طرح مصرع"شبانِ ہجر میں سایا دکھائی دیتا ہے"ہے شاید۔۔
اور آپ کا یہ مشورہ"لکھتے رہنا چاہیے۔۔۔۔۔":Dجی ہاں!بچوں کے لیے ٹیسٹ۔اُن کی ریاضی کے سوال سمجھنے کے لیے لکھنا۔ گھر کا حساب کتاب۔خریداری کی فہرست۔نوکری کے لیے کرنے والے کاموں کی فہرست۔دستخط۔چیک۔وغیرہ وغیرہ۔:Dہاہاہاہاہا۔
بہرحال اس قدر حوصلہ افزائی پہ میں تو پھولے نہیں سما رہی۔ :Dبہت شکریہ۔جزاک اللہ!جیتے رہیے۔ خوش رہیے۔ اللہ ہر وہ تمنا پوری کرے جو آپ کے لیے بہترین ہو۔ اللہ بہت نوازے۔ آمین!
 
Top