جوش وہ جوشِ خیرگی ہے، تماشا کہیں جسے

حسان خان

لائبریرین
وہ جوشِ خیرگی ہے، تماشا کہیں جسے
بے پردہ یوں ہوئے ہو کہ پردا کہیں جسے
اللہ ری خاکسارئ رندانِ بادہ خوار
رشکِ غرورِ قیصر و کسریٰ کہیں جسے
بجلی گری وہ دل پہ جگر تک اتر گئی
اُس چرخِ ناز سے، قدِ بالا کہیں جسے
زلفِ حیاتِ نوعِ بشر میں ہے آج تک
وہ خَم، گناہِ آدم و حوّا کہیں جسے
کتنی حقیقتوں سے فزوں تر ہے وہ فریب
دل کی زباں میں وعدۂ فردا کہیں جسے
میرا نفَس ہے، جس کا لقب ہے شمیمِ زلف
میری نظر ہے چہرۂ زیبا کہیں جسے
وہ بھی ہے ایک اصل میں بہکی ہوئی وفا
اہلِ جہاں عداوتِ اعدا کہیں جسے
لو، آ رہا ہے وہ کوئی مستِ خرامِ ناز
اِس چال سے کہ لرزشِ صہبا کہیں جسے
میرے نشاط خانۂ امروز میں نہیں
وہ بزدلی کہ خطرۂ فردا کہیں جسے
جنجر ہے جوش ہات میں، دامن لہو سے تر
یہ اُس کے طَور ہیں کہ مسیحا کہیں جسے
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۲۸ء
 
Top