وہ جو خوشیوں کی آس ہوتی ہے

وہ جو خوشیوں کی آس ہوتی ہے
سب دکھوں کی اساس ہوتی ہے

کاروانِ ثبات واقف ہے
لبِ ساحل جو پیاس ہوتی ہے

رہبرانِ وطن کی آنکھوں میں
تیرگی بے لباس ہوتی ہے

مدتوں کے اداس لوگوں کو
اک محبت کی پیاس ہوتی ہے

میرے ہاتھوں میں اب تلک شائد
تیرے ہاتھوں کی باس ہوتی ہے

مری سانسوں میں اب بھی باقی ہے
جو مہک تجھ سے خاص ہوتی ہے

بستیوں میں، سفر میں، راہوں میں
تُو مرے آس پاس ہوتی ہے

انکی محفل میں جب مجھے دیکھو
جاں سراپا سپاس ہوتی ہے​
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! کیا خوب رنگ ہے آپ کی غزل کا۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
ایک مصرع میں آپ نے عصر کو بر وزن فعو باندھا ہے جب کہ عصر کا ص ساکن ہوتا ہے۔ اسے دیکھ لیجیے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے محمود۔ ’عصر‘ کے غلط تلفظ کے علاوہ آخری شعر کا پہلا مصرع بھی خارج از بحر ہے، فاتھ کی نظر نہیں پڑی اس پر۔ یہ بہت آسانی سے بحر میں اس طرح کیا جا سکتا ہے
انکی محفل میں جب مجھے دیکھو
ویسے یہ دوسری بات ہے کہ اس مصرع میں ’مجھ‘ کی ضرورت بھی نہیں جب کہ دوسرے مصرع میں صرف جاں کا ذکر ہے، کس کی جاں؟ اس کومبہم یا فہم شدہ سمجھ لیا گیا ہے۔
 
دراصل اس آخری مصرع میں میں تخلص کو لانا چاہتا تھا لیکن کوئی صورت نہ بنی۔ انکی محفل میں ۔ ۔ ۔ کو دیکھو ۔ سوچ رہا ہوں کہ کوئی سہ حرفی تخلص رکھ لوں۔ 'محمود' کی کھپت ذرا مشکل ہی لگتی ہے۔:)
 

الف عین

لائبریرین
وہ تو ٹھیک ہے محمود، لیکن یہ شہر کے ساتھ بھی وہی پرابلم ہے، عصر کی جگہ۔۔ یہ بھی شہر، بسکوت ہ، بر وزن فعل ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اب درست ہے، میں اس لفظ سے اصلاح کرنا نہیں چاہ رہا تھا، غلط فہمی ہوتی کہ میں پاکستان پر طنز کر رہا ہوں۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ محمود غازی صاحب، ماشا اللہ بہت خوب ، سلامت رہیں ، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
 
Top