امن ایمان
محفلین
“وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر“
[align=justify:1d0b15efbc]اتنی چپ چپ کیوں بیٹھی ہو فری؟“اسے یوں تنہااورخاموش بیٹھادیکھ کران کا دل بےحداداس ہوا۔وہ جواب میں کچھ بولے بغیر خاموشی سے ان کامنہ دیکھتی رہی۔اس کے چہرے پرپھیلاخوف اور سراسیمگی ان کے دل کو مزید دکھی کر گئی۔
اپنادکھ بھلائےوہ سارا دن اس کے ساتھ ہنسنے ہنسانےاورباتیں کرنے کی کوشش کرتی تھیں‘مگروہ آنکھوں میں اجنبیت اور خوف لیےان سے کھنیچی کھنیچی رہتی تھی۔
“پارک چلو گی“؟
وہ زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہوگئی تھیں۔وہ کسی ربوٹ کی طرح میشنی انداز میں ان کے ساتھ چلنے لگی‘ پچھلے ایک مہینے سے وہ یہاں اسی طرح رہ رہی تھی۔وہ کھانے کو کہتیں تو کھانا کھا لیتی۔وہ اسے سونے کے لیے ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے آتیں تو خاموشی سے بستر پر لیٹ جاتی۔وہ اسے کہیں تفریح کے لیے لے جاتیں‘وہ چپ چاپ چلی جاتی۔ پھر چاہے وہ کتنی ہی اچھی اور بچوں کی دلچسپی کی جگہ کیوں نہ ہوتی‘وہ بغیر کسی دلچسپی کے سپاٹ چہرے کے ساتھ وہاں ان کے ساتھ گھومتی۔ان کی بہت کوششوں کے باوجود بھی اس کی خاموشی‘خوف اور اجنبیت ختم ہو کر نہیں دے رہی تھی۔
وہ یونہی اس کا ہاتھ تھامے گیٹ سے باہر نکل آئی تھیں۔وہ بے دھیانی میں ان کی باتیں سن رہی تھی جب سامنے سے سائیکلوں پر آتے پانچ چھے لڑکوں کو دیکھ کر ایک دم کچھ ڈر کر ان کے مزید قریب ہوگئی۔
تین چار دن پہلے بھی پارک جاتے ہوئے اس نے انہی لڑکوں کو دیکھا تھا‘اس کو وہ سارے کے سارے ہی بڑے بدتمیز اور شرارتی سے لگے تھے۔ خاص طور پر ان میں سے ایک لڑکاجو سب سے زیادہ شور مچاتا ہوا دونوں ہاتھ چھوڑ کر سائیکل چلارہا تھا‘اسے وہ سب سے زیادہ برا لگا تھا۔اس روز بھی ان لوگوں کی بےہنگم چیخوں اور شور سے ڈر کر وہ نانی امی کے قریب ہوکر چلنے لگی تھی‘تب پتہ نہیں کیسے وہ لڑکا اس کا ڈرنا اور نانی امی کے قریب ہوجانا بھانپ گیا تھا اور پھر اپنے دوستوں کے غول سے سائیکل نکال کر وہ ایک دم تیزی سے اس کے پاس کچھ اس انداز سے چیختا ہوا لایا تھا جیسے اس کے پیروں پر سائیکل چڑھانے کا ارادہ رکھتا ہو۔اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی تھی اور وہ قہقہ لگاتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا۔اس کے دوست بھی اس کی اس شرارت پر ذور ذور سے ہنس رہے تھے۔نانی امی تو پتہ نہیں اپنے کس دھیان میں تھیں کہ انہوں نے نہ ان لڑکوں کے شور پر کچھ توجہ دی تھی اور نہ ہی اس لڑکے کے ایک دم سائیکل قریب لانے کا نوٹس لیاتھا۔
آج بھی ان لڑکوں کا ویسا ہی انداز تھا۔عجیب سا دائرہ بنا کر وہ لوگ سائیکلنگ کرتے تھےاور وہ لڑکا جو غالبا ان کا گروپ لیڈر تھا‘ہاتھ چھوڑ کر سائیکل چلانے پر خود کو کوئی پھنےخان قسم کی چیز سمجھتا تھا۔وہ لوگ شور مچاتے آگے بڑھ گئے تھے جبکہ وہ نانی امی کے ساتھ پارک کی طرف جانے والی سڑک پر مڑ گئی تھی۔پارک میں سارا وقت وہ بےدلی سے ایک بنچ پر بیٹھی رہی‘ایک گھنٹے بعد وہ دونوں واپس آئیں تو نانا ابا کے دوست واپس جا چکے تھےاور اب وہ لاؤنج میں بٹیھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔نانی امی سے تو صرف اجنبت محسوس ہوتی تھی لیکن نانا ابا سے تو اسے ڈر لگاکرتا تھا۔جس جگہ وہ ہوتے وہ خود بخود وہاں سے ہٹ جایا کرتی۔وہ اس سے کچھ کہتے نہیں تھےلیکن اس کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں عجیب سا کھردرا پن اور بے گانگی چھلکنےلگتی تھی۔نانی امی ان کے پاس ہی بیٹھ گئی تھیں اور اسے بھی ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر میں بیٹھا لیا۔وہ بیٹھ تو گئی تھی مگر نانا ابا کی خود پر پڑنے والی اجنبی نگاہوں سے ہمیشہ کی طرح سہم گئی تھی۔پتہ نہیں کبھی کبھی ان کی آنکھوں میں نفرت کیوں نظر آتی تھی۔وہ سر جھکائے ڈری ہوئی بیٹھی تھی۔
“جاؤ بیٹامنہ ہاتھ دھو کر فریش ہوجاؤ۔پھر ایک گلاس ایپل جوس پینا ہے۔اسلم ہوگا کچن میں اس سے لے لینا“
وہ ہر ممکن کوشش کررہی تھیں کہ وہ اس گھر کو اپناگھر سمجھ کر رہنے لگے۔یہاں کے لوگوں اور یہاں کی تمام چیزوں کی عادی ہوجائے۔گو اب تک اپنے اس مقصد میں وہ کامیاب نہ ہوسکی تھیں مگر ابھی ہمت نہیں ہاری تھی۔
“میں سوچ رہی ہوں کہ فریا کو کسی سائیکاٹرسٹ کو دیکھاؤں“ اتنے دن ہوگئے ہیں۔اب تک وہ بالکل پہلے دن والی ہی کفییت میں ہے۔ویسے ہی سوتے ہوئے میں ڈر جاتی ہے۔پھر ماما ماما کر کے رونا شروع کردے گی۔میں اٹھاؤں گی تو اٹھتے ہی میری شکل دیکھ کر ایک دم چپ ہوجائے گی۔وہ حادثہ اس کے زہن پر نقش ہوگیاہے‘بھول نہیں پارہی ہے اس واقعہ کو۔
اس کے اٹھتے ہی انہوں نے نانا ابا سے اپنی پریشانی بیان کی تھی۔
انہوں نے جواب میں صرف سر ہلادیا۔
[/align:1d0b15efbc]
♥♥♥♥
تبصرے کے لیے یہ دیکھیں۔۔
وہ جو قرض رکھتے تھے۔۔۔ (تبصرہ)