وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر از فرحت اشتیاق (مکمل ناول)

امن ایمان

محفلین
“وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر“

[align=justify:1d0b15efbc]اتنی چپ چپ کیوں بیٹھی ہو فری؟“اسے یوں تنہااورخاموش بیٹھادیکھ کران کا دل بےحداداس ہوا۔وہ جواب میں کچھ بولے بغیر خاموشی سے ان کامنہ دیکھتی رہی۔اس کے چہرے پرپھیلاخوف اور سراسیمگی ان کے دل کو مزید دکھی کر گئی۔
اپنادکھ بھلائےوہ سارا دن اس کے ساتھ ہنسنے ہنسانےاورباتیں کرنے کی کوشش کرتی تھیں‘مگروہ آنکھوں میں اجنبیت اور خوف لیےان سے کھنیچی کھنیچی رہتی تھی۔
“پارک چلو گی“؟
وہ زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہوگئی تھیں۔وہ کسی ربوٹ کی طرح میشنی انداز میں ان کے ساتھ چلنے لگی‘ پچھلے ایک مہینے سے وہ یہاں اسی طرح رہ رہی تھی۔وہ کھانے کو کہتیں تو کھانا کھا لیتی۔وہ اسے سونے کے لیے ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لے آتیں تو خاموشی سے بستر پر لیٹ جاتی۔وہ اسے کہیں تفریح کے لیے لے جاتیں‘وہ چپ چاپ چلی جاتی۔ پھر چاہے وہ کتنی ہی اچھی اور بچوں کی دلچسپی کی جگہ کیوں نہ ہوتی‘وہ بغیر کسی دلچسپی کے سپاٹ چہرے کے ساتھ وہاں ان کے ساتھ گھومتی۔ان کی بہت کوششوں کے باوجود بھی اس کی خاموشی‘خوف اور اجنبیت ختم ہو کر نہیں دے رہی تھی۔
وہ یونہی اس کا ہاتھ تھامے گیٹ سے باہر نکل آئی تھیں۔وہ بے دھیانی میں ان کی باتیں سن رہی تھی جب سامنے سے سائیکلوں پر آتے پانچ چھے لڑکوں کو دیکھ کر ایک دم کچھ ڈر کر ان کے مزید قریب ہوگئی۔
تین چار دن پہلے بھی پارک جاتے ہوئے اس نے انہی لڑکوں کو دیکھا تھا‘اس کو وہ سارے کے سارے ہی بڑے بدتمیز اور شرارتی سے لگے تھے۔ خاص طور پر ان میں سے ایک لڑکاجو سب سے زیادہ شور مچاتا ہوا دونوں ہاتھ چھوڑ کر سائیکل چلارہا تھا‘اسے وہ سب سے زیادہ برا لگا تھا۔اس روز بھی ان لوگوں کی بےہنگم چیخوں اور شور سے ڈر کر وہ نانی امی کے قریب ہوکر چلنے لگی تھی‘تب پتہ نہیں کیسے وہ لڑکا اس کا ڈرنا اور نانی امی کے قریب ہوجانا بھانپ گیا تھا اور پھر اپنے دوستوں کے غول سے سائیکل نکال کر وہ ایک دم تیزی سے اس کے پاس کچھ اس انداز سے چیختا ہوا لایا تھا جیسے اس کے پیروں پر سائیکل چڑھانے کا ارادہ رکھتا ہو۔اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی تھی اور وہ قہقہ لگاتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا۔اس کے دوست بھی اس کی اس شرارت پر ذور ذور سے ہنس رہے تھے۔نانی امی تو پتہ نہیں اپنے کس دھیان میں تھیں کہ انہوں نے نہ ان لڑکوں کے شور پر کچھ توجہ دی تھی اور نہ ہی اس لڑکے کے ایک دم سائیکل قریب لانے کا نوٹس لیاتھا۔
آج بھی ان لڑکوں کا ویسا ہی انداز تھا۔عجیب سا دائرہ بنا کر وہ لوگ سائیکلنگ کرتے تھےاور وہ لڑکا جو غالبا ان کا گروپ لیڈر تھا‘ہاتھ چھوڑ کر سائیکل چلانے پر خود کو کوئی پھنےخان قسم کی چیز سمجھتا تھا۔وہ لوگ شور مچاتے آگے بڑھ گئے تھے جبکہ وہ نانی امی کے ساتھ پارک کی طرف جانے والی سڑک پر مڑ گئی تھی۔پارک میں سارا وقت وہ بےدلی سے ایک بنچ پر بیٹھی رہی‘ایک گھنٹے بعد وہ دونوں واپس آئیں تو نانا ابا کے دوست واپس جا چکے تھےاور اب وہ لاؤنج میں بٹیھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔نانی امی سے تو صرف اجنبت محسوس ہوتی تھی لیکن نانا ابا سے تو اسے ڈر لگاکرتا تھا۔جس جگہ وہ ہوتے وہ خود بخود وہاں سے ہٹ جایا کرتی۔وہ اس سے کچھ کہتے نہیں تھےلیکن اس کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں عجیب سا کھردرا پن اور بے گانگی چھلکنےلگتی تھی۔نانی امی ان کے پاس ہی بیٹھ گئی تھیں اور اسے بھی ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر میں بیٹھا لیا۔وہ بیٹھ تو گئی تھی مگر نانا ابا کی خود پر پڑنے والی اجنبی نگاہوں سے ہمیشہ کی طرح سہم گئی تھی۔پتہ نہیں کبھی کبھی ان کی آنکھوں میں نفرت کیوں نظر آتی تھی۔وہ سر جھکائے ڈری ہوئی بیٹھی تھی۔
“جاؤ بیٹامنہ ہاتھ دھو کر فریش ہوجاؤ۔پھر ایک گلاس ایپل جوس پینا ہے۔اسلم ہوگا کچن میں اس سے لے لینا“
وہ ہر ممکن کوشش کررہی تھیں کہ وہ اس گھر کو اپناگھر سمجھ کر رہنے لگے۔یہاں کے لوگوں اور یہاں کی تمام چیزوں کی عادی ہوجائے۔گو اب تک اپنے اس مقصد میں وہ کامیاب نہ ہوسکی تھیں مگر ابھی ہمت نہیں ہاری تھی۔
“میں سوچ رہی ہوں کہ فریا کو کسی سائیکاٹرسٹ کو دیکھاؤں“ اتنے دن ہوگئے ہیں۔اب تک وہ بالکل پہلے دن والی ہی کفییت میں ہے۔ویسے ہی سوتے ہوئے میں ڈر جاتی ہے۔پھر ماما ماما کر کے رونا شروع کردے گی۔میں اٹھاؤں گی تو اٹھتے ہی میری شکل دیکھ کر ایک دم چپ ہوجائے گی۔وہ حادثہ اس کے زہن پر نقش ہوگیاہے‘بھول نہیں پارہی ہے اس واقعہ کو۔
اس کے اٹھتے ہی انہوں نے نانا ابا سے اپنی پریشانی بیان کی تھی۔
انہوں نے جواب میں صرف سر ہلادیا۔
[/align:1d0b15efbc]
♥♥♥♥​

تبصرے کے لیے یہ دیکھیں۔۔

وہ جو قرض رکھتے تھے۔۔۔ (تبصرہ)
 

امن ایمان

محفلین
[align=justify:1e157f312c]آج نانی امی نے اسے ڈرائیور کے ساتھ قریبی سپر اسٹور بھیجا۔
“اپنی پسند کی چاکلیٹس اور آئس کریم خرید کر لے آؤ“۔انہوں نے اس کے ہاتھ میں پیسے دیتے ہوئے کہا۔
ڈرائیور اس کے پیچھے پیچھے پھر رہا تھا۔کتنی دیر ہوگئی تھی اس نے کوئی چیز پسند نہیں کی تھی کچھ عاجز آ کر ڈرائیور نے مختلف خانوں میں سجی انواع و اقسام کی چاکلیٹس‘بسکٹس اور فریزر سے نکال نکال کر مختلف آئس کریم دیکھانے لگا۔اس کی کوفت زدہ شکل دیکھ کر اس نے ا ن میں سے دو تین چیزوں کے لیے ہامی بھر لی۔وہ شکر ادا کرتا تیزی سے کاؤنٹر کی طرف پےمنٹ کرنے چلاگیا تھا۔
وہ بھی آہستہ قدموں سے چلتی اس کے پیچھے جانے لگی تھی کہ تب ہی اچانک اسے کسی چیز سے ٹھوکر لگی۔اور وہ ایک دم توازن قائم نہ رہنے کی وجہ سے زمین پر گر گئی۔
بےساختہ اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا‘وہ اس کے سامنے کھڑا بڑی ڈھٹائی سے مسکرا رہا تھا۔اگر وہ غائب دماغی سے نہ چل رہی ہوتی تو اسے دیکھ کر ضرور محتاط ہوجاتی۔اس نے جان بوجھ کر اپنی ٹانگ اس کے پاؤں سےٹکرائی تھی اور اب وہ اس کے سر پرکھڑا اسے گرا ہوا دیکھ کر زور زور سے ہنس رہا تھا۔
بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل آئے۔ہاتھوں سے رگڑ رگڑ کر آنسو صاف کرتی وہ جلدی سے کھڑی ہوگئی۔وہ کبھی کوئی شرارت کرکے فرار نہیں ہوتا تھا‘اس لیے بڑے مزے سے کھڑا تھاجبکہ وہ اس کیطرف دیکھے بغیر تیزی سے آگے بڑھ گئی۔
ابھی اسے گھر واپس آئے تھوڑی ہی دیر ہوئی ہوگی‘جب ملازم نے اسے اس کے کسی مہمان کی آمد کی اطلاع دی۔وہ ہونق کر اس کی شکل دیکھ رہی تھی۔وہ یہاں کسی کو جانتی ہی نہیں پھر اس کا یہاں کوئی دوست کہاں سے آگیا۔
“تم نے نام نہیں پوچھا اس کا؟“ نانی امی بھی اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔
“سعد نام بتا رہا ہے۔اسپورٹس سائیکل پر ہے۔کہہ رہا ہے کہ یہاں ایک باربی ڈول رہتی ہے۔اس سے ملنا ہے“ وہ جواب میں کہتا ہوا ہنسنے لگا۔
“ اپنی فریا بےبی کو کتنا پیارا نام دیا ہےاس بچے نے“۔وہ اٹھ کر جانا نہیں چاہ رہی تھی‘لیکن نانی امی نے اسے جانے کو کہہ دیا۔
ان کے اصرار پر وہ ملازم کے ساتھ ہی چلتی ہوئی باہر آئی وہ سائیکل ایک طرف کھڑی کیے چوکیدار کے ساتھ گفتگو میں مشغول تھا۔
وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ بدتیمز لڑکا یہاں گھر تک آجائے گااندر سے باہر تک آتے آتے اس نے بس یہی سوچا تھا کہ پتہ نہیں کون ہے جو اس سے ملنا چاہتا ہےابھی تھوڑی دیر پہلے جو حرکت وہ اس کے ساتھ کرچکا تھا‘اس کے بعد یہاں آناڈھٹائی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا تھا۔اسے آتادیکھ کر وہ دوستانہ انداز میں آگے بڑھا۔
“میں سعد منیر ہوں“۔اس کے غیر ملکی خدوخال دیکھ کر ہر کوئی اس سے انگریزی میں مخاطب ہوا کرتا تھااور ایسا ہی اس نے بھی کیا تھا۔
اپنا تعارف کرواتے ہوئے اس نے اپنا دایاں ہاتھ اس کی طرف بڑھایااس نے ہاتھ ملانے کے لیے اپنا ہاتھ آگے نہیں کیا۔
“مجھے پتہ ہےتم مجھ سے ناراض ہو‘اس لیے ہاتھ نہیں ملارہی ہو“وہ اپنا بڑھا ہوا ہاتھ پیچھے ہٹاتے ہوئے بولا۔
“میں اصل میں تم سے ایکسکیوزکرنے آیاہوں‘میں نےتو یونہی شرارت کی تھی مگر تم رو پڑیں۔مجھے بہت افسوس ہوا“۔وہ کچھ شرمندہ سے لہجے میں بولا۔
“میری عادت ہے شرارتیں کرنے کی۔میں سمجھ رہا تھا‘ تم اس حرکت پر مجھ سے لڑوگی۔برا بھلا کہوگی۔مگر تم نے توبجائے لڑنے کے روناشروع کردیا‘بس اسی بات پر تمھیں سوری کہنے آیاہوں۔تمھیں میں نے پہلے بھی تین چار مرتبہ پارک آتےجاتے دیکھا ہے۔یہیں اگلی لین(Lane) میں تو میرا گھر ہے“۔وہ بڑی سنجیدگی سے معذرت کررہاتھا۔مگر جب وہ اس کے معذرت نامے کے جواب میں کچھ بھی نہیں بولی تو وہ چڑسا گیا۔
“تم کیاگونگی ہو؟“ غالبا اس سے زیادہ دیر تک وہ ادب و آداب کے دائرے میں رہ نہیں سکتا تھا۔
وہ بغیر اس کی بات کاجواب دیے اندر جانے کے لیے مڑ گئی۔اس بدتمیز لڑکے اور اس کی معذرت کو وہ کوئی اہیمت نہیں دے رہی تھی۔ملازم سے بھی اس نے آئندہ اس لڑکے کوگیٹ سے ہی لوٹا دینے کے لیے کہہ دیا تھامگر اسے معلوم نہیں تھاکہ جس سے سے وہ اپنے گھر پرملنے سے انکاری ہوچکی ہے‘وہ اسے اسکول میں روز ملاکرےگا۔
اپنے اسکول کے پہلے ہی دن وہ اسے وہاں پر دیکھ چکی تھی‘خود اس کی نظر فریا پر نہیں پڑی تھی۔وہ اس کے نہ دیکھنے پر سکون سا محسوس کرکے جلدی سے کلاس میں چلی گئی تھی مگر اسی روز چھٹی کے وقت جب وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ رہی تھی تو وہ بھی اُن کے پیچھے والی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔اس کے ساتھ ایک اور لڑکا بھی تھا۔جو عمر میں اس سے چھوٹا لگ رہا تھا۔غالبا وہ اس کا چھوٹا بھائی تھا‘اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ بھی اسے دیکھ چکا تھا۔
نانی امی ڈرائیور کے ساتھ خود اسے لینے آئی تھیں‘وہ بڑی تفصیل سے اس سے اسکول کی ایک ایک بات پوچھ رہی تھیں۔
“تھوڑے دن لگیں گے تمہیں سیٹ ہونے میں۔پھر تم دیکھنا یہاں کا اسکول تمہیں اپنے میڈرڈ والے اسکول سے بھی زیادہ اچھا لگے گا“۔وہ اس کے چہرے پر پھیلی افسردگی دیکھ کر پیار سے سمجھانے لگیں۔
شام میں ناناابا نے بھی سرسری سے انداز میں اس سے اسکول کے بارے میں پوچھا۔ان کے مختصر سوالوں کا اس نے بہت مختصر لفظوں میں جواب دیا۔
اس نے کلاس میں کسی سے بھی دوستی کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔دو تین لڑکیوں نے ازخود اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھامگر اس کی سرد مہری اور خاموشی دیکھتے ہوئے خود ہی پیچھے ہٹ گئی تھیں۔اسے نہ تو اسکول سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ دوستی سے اور نہ ہی پڑھائی سے‘نانی امی اسے اسکول بھیجتیں اور وہ بیگ لٹکائےاسکول آجاتی۔حالانکہ پہلے وہ بہت زہین اور محنتی طالبہ تھی۔اگر اس کے موجودہ ٹیچرز کو یہ بات بتائی جاتی کہ فریا عبدالرحمان 5th گریڈ تک ہر کلاس میں پہلی پوزیشن لیتی رہی ہے اور نہ صرف پڑھائی میں بلکہ دیگر غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی اس نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور ہمیشہ ہی انعامات بھی جیت کرلائی ہے تو وہ اس بات پر یقین کرنے سے انکار کردیتے۔
مارے باندھے ہوم ورک کرنے والی فریا عبدالرحمان کلاس کی سب ڈل اور ڈفر اسٹوڈنٹ کہلائی کاسکتی تھی۔سعد سے اس کا اسکول میں کئی مرتبہ آمناسامنا ہوتا مگر نہ تو اس نے اب اس کے ساتھ کوئی بدتیمزی کی تھی اور نہ ہی اس سے بات کرنے ہی کی کوشش کی تھی۔وہ اسے دیکھ کر لاتعلقی سے گزر جاتا تھا ایسے جیسے جانتا ہی نہ ہو۔وہ اس سے دوکلاس آگے یعنی 8th گریڈ میں تھا۔اسکول میں بھی اس کی دادا گیری تھی سنیئر اسٹوڈنٹس جو اس سے عمر اور قدوقامت میں کافی بڑے تھے‘وہ بڑے آرام سے ان سے لڑائیاں مول لیا کرتا تھا۔اور مزے کی بات یہ تھی کہ ایسے جھگڑوں میں جیتا بھی کرتا تھا۔
اس روز وہ چھٹی کے بعد گیٹ کے پاس بنی سنگی بینچ پربیٹھی اپنی گاڑی کا انتظارکررہی تھی‘ چھٹی ہوئے کافی دیر ہوگئی تھی اور ڈرائیور ابھی تک نہیں آیاتھا‘اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ چھٹی کے وقت ڈرائیورموجود نہ ہو۔پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا اور وہ اچھی خاصی پریشان ہوگئی تھی۔کافی سارے بچے جا چکے تھے‘ گیٹ کی طرف جاتے ہوئے سعد نے اسے رونکھی سی شکل بنائے بینچ پر بیٹھے دیکھا تو خود کو اس کے پاس آنے سے روک نہیں پایا۔
“کیا ہوا‘ تمہیں کوئی لینے نہیں آیا؟“ اس نے سر اٹھا کر اپنے پاس کھڑے سعد کو دیکھااور بے ساختہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
“اب میں گھر کیسے جاؤں گی؟“ وہ روتے ہوئے بولی۔
“اتنی سی بات پر رو رہی ہو۔اگر کوئی لینے نہیں آیاتو تم ہمارے ساتھ چلنا۔ہم تمہیں ڈراپ کردیں گے۔“وہ بہت پرخلوص انداز میں بولا۔
“تم ٹھرو‘میں اپنے بھائی کو تھوڑی دیر انتظار کرنے کے لیے کہہ آؤں۔“وہ اس سے کہتا ہوا گیٹ سے باہر کھڑی اپنی گاڑی میں بیٹھے بھائی اور ڈرائیور کو کچھ دیر رکنے کا کہہ کر واپس اس کے پاس آگیا۔
“ تم مجھے اپنے گھر کافون نمبر دو‘میں اندر آفس سے جاکر فون کر کے پتہ کرلیتا ہوں۔“وہ اس کے برابر میں بینچ پر بیٹھ گیا۔
وہ روتے ہوئے فون نمبر بتانے لگی تھی‘اس نے نمبر کہیں نوٹ نہیں کیا تھابلکہ اس کی زبانی نمبر سنتا ہوا فورا کھڑا ہوگیا تھا۔
ابھی وہ مڑا نہیں تھا کہ فریا اپنی گاڑی کا ہارن پہچان کر ایک دم خوشی سے اچھلتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔
“میری گاڑی آگئی۔“ وہ بیگ اٹھاتے ہوئے پرسکون سی ہوکر بولی۔وہ دونوں ایک ساتھ گیٹ سے باہر نکلے۔اپنی گاڑی کی طرف جاتے ہوئے اسے مینرز یاد آہی گئے۔
“تھینک یو۔“وہ اس کی طرف دیکھ کر تھوڑاسا مسکرائی۔
وہ اسکے پرتکلف سے شکریے پر ہنس پڑا۔
وہ گاڑی میں بیٹھی تو ڈرائیور دیر ہوجانے پر معذرت کرتا گاڑی کے خراب ہوجانے کی داستان سنانے لگا‘وہ بےتوجہی سے اس کی باتیں سنتی سعد کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
“سعد اچھا لڑکا ہے۔“ پہلی مرتبہ اس نے سعد کے بارے میں کوئی اچھی بات سوچی تھی۔[/align:1e157f312c]
 

امن ایمان

محفلین
[align=justify:79d89e2db3]وہ بھری دھوپ میں سڑکوں پر اسکیٹنگ کرتا پھر رہا تھا۔دوپہر میں سونا اسے سخت ناپسند تھا۔اسکول کھلے ہوتے تو وہ دوپہر میں اپنا ہوم ورک وغیرہ کرلیا کرتا تھاجبکہ آج کل گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے یہ مصروفیت بھی نہیں تھی۔اس کے اکثر دوست چھٹیوں میں کہیں نہ کہیں گھومنے گئے ہوئے تھے‘خود وہ اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ اپنے رشتہ داروں سے مل کر اور گھوم پھر کر واپس آچکا تھااور اب واپس آنے کے بعد سے سخت بوریت محسوس کر رہاتھا۔سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ چھٹیاں ختم ہونے میں جو یہ ایک مہنیہ باقی ہے یہ گزرے گا کیسے؟اس وقت بھی ممی اور زوہیب دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر سونے کے لیے لیٹ گئے تھےجبکہ وہ بوریت کو دور کرنے کے لیے گھر سے باہر نکل آیا تھا۔
فریا کو سڑک پر ادھر اُدھر کچھ تلاش کرتا دیکھ کر وہ چونکا تھا۔
اسے دوسرے بچوں کی طرح گھر سے باہر نکلتے اور کھیلتے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا‘اس لیے اسے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔
“ہیلو۔۔۔“ وہ اس کے پاس آکر بولا۔وہ نیم کے درخت کے پیچھے جھانک کر پتہ نہیں کیا چیز دیکھ رہی تھی‘اس کی آواز سن کر چونک کر مڑی۔
“ہیلو!“ جوابا مسکراتے ہوئے اس نے بھی ہیلو کہا۔اس روز کے بعد سے وہ سعد کے ساتھ اسکول میں آمناسامنا ہونے پر ہائے ہیلو کرنے لگی تھی۔
“کیا ڈوھونڈ رہی ہو؟“ چیونگم چباتے ہوئے اس نے پوچھا۔
“کینڈی گھر سے باہر پتہ نہیں کہاں نکل گئی ہے۔اسی کو ڈوھونڈرہی ہوں۔“ اس کے چہرے پر پریشانی چھائی ہوئی تھی۔“میری بلی کا نام ہے کینڈی۔“ اس سے پہلے کے وہ کچھ پوچھتااس نے خود ہی وضاحت کردی۔
“جائے گی کہاں‘یہیں کہیں ہوگی۔چلو میں تمھارے ساتھ مل ڈوھونڈوا لیتا ہوں۔تم یہ بتاؤ کہ وہ ہے کس طرح کی‘یعنی اس کی شکل و صورت وغیرہ۔“وہ اس پاس نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھنے لگا۔
“وائٹ کلر کی ہے کینڈی اور بہت خوبصورت ہے۔بہت سی بلیوں میں بھی الگ پہچان لی جاتی ہے۔اس کا فر (Fur) اتنا نرم ہے اور دم بھی بالکل وائٹ اور بہت موٹی سی ہے۔اور آنکھیں۔۔۔“ابھی بلی کا قیصدہ آنکھوں تک ہی پہنچا تھا کہ اس کی آنکھوں سے ٹپاٹپ آنسو بہنے لگے۔
وہ جو بڑے غور سے بلی کا حلیہ سن رہا تھا‘اس کے ایک دم رو پڑنے پر حیران تو نہیں ہوا تھا البتہ غصہ بہت شدید آیا۔
تم ہر بات پر اسی طرح روتی ہو۔تمہاری کوئی بات بغیر روئے ہوئے ہوتی ہے؟ گر گئیں تو روؤ گی‘گاڑی نہیں آئے گی تو روؤ گی اور کینڈی کھوگئی تو روؤ گی۔ایڈیٹ‘ رونا ایسے شروع کیا ہے جیسے کسی مرحوم کی خوبیاں گنواتے گنواتے بندہ اچانک اس کے مرنے کا سوچ کر دوبارہ سے رونے لگتا ہے۔“وہ روتے ہوئے اس کی ڈانٹ سن رہی تھی۔
“ڈھونڈتا ہو میں تمہاری اس ہزاروں میں ایک کینڈی کو۔اب یہ آنسو صاف کرو اور آواز بالکل بندہوجانی چاہیے۔نہیں۔ ابھی بھی مجھے ہلکی سے سوں سوں کی آواز آرہی ہے۔“ اس نے جلدی جلدی ہاتھوں سے آنسو صاف کیے اس بالکل خاموش بھی ہوگئی وہ وہیں کھڑی سے سڑک کر آگے جاتا ہوا دیکھنے لگی۔وہ آہستہ آہستہ اسکیٹنگ کرتابغور ادھر اُدھر دیکھتا ہوا دوسری گلی میں مڑ گیا۔نانی اماں نے کتنی مہنگی اور خوبصورت بلی منگواکراسے دی تھی۔وہ تین مہینے سے اس کے پاس تھی۔اس کی فورا ہی کینڈی سے دوستی ہوگئی تھی۔نانی امی اسے کینڈی کے ساتھ کھیلتا دیکھ کر خوش تھیں۔
دس منٹ بعد اس نے سعد کو بڑی تیزی سے واپس آتا ہوا دیکھا‘اس کی گود میں کینڈی کو دیکھ کر اس کی کب سے اٹکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔
“یہ لو یہ رہی تمہاری حیسن کینڈی۔وہاں افتخار انکل کے گیٹ کے باہر ان کی بلیوں کے ساتھ بیٹھی پتہ نہیں کیا مذاکرات کررہئ تھی۔“سعد نے اس کے پاس آکر رکتے ہوئے کہا۔فریا نے جلدی سے آگے بڑھ کر کینڈی کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔
“ تھینک یو سعد۔۔۔“ وہ بہت تشکر آمیز لہجے میں بولی۔اس نے لاپرواہی سے سر ہلاتے ہوئے جیسے اس کا شکریہ بڑی شان بےنیازی سے قبول کیا۔
“ویسے تم نے کہا بالکل ٹھیک تھا۔ان کی پانچ بلیوں کے ساتھ بیٹھی بھی یہ بالکل الگ لگ رہی تھی۔تمہاری کینڈی واقعی خوبصورت ہے۔بالکل تمہاری طرح۔“ وہ واپس مڑ کر اپنے گھر کی طرف چلنے لگی۔سعد بھی اسکیٹنگ کرتااس کے ساتھ ساتھ ہی چلنے لگا تھا۔وہ اپنی اور کینڈی کی تعریف پر ہنس دی۔
“آؤسعد! میں تمہیں اپنی نانی امی سے ملواؤں۔“
گیٹ کے سامنے رکتے ہوئے اس نے اسے اندر آنے کی دعوت دی۔وہ بغیر کسی اعتراض کے اس کے ساتھ اندر آگیا۔اسے لاونج میں بٹھا کر وہ نانی امی کو بلانے چلی گئی۔کچھ دیر بعد وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر بڑے پرجوش سے انداز میں انھیں لاونج میں لے آئی۔سعد نے انھیں دیکھ کر جلدی سے اٹھ کر سلام کیا تھا۔
“نانی امی ! یہ سعد ہے۔میرے اسکول میں پڑھتا ہےاور اس کا گھر بھی یہیں قریب ہے۔“اس نے کچھ فخریہ انداز میں تعارف کروایا۔
شاید انھیں یہ باور کرانا چاہ رہی تھی کہ دیکھ لیں‘میں نے ایک دوست بنا ہی لیا ہے۔آپ سمجھتی تھیں کہ میں کسی سے دوستی کر ہی نہیں سکتی۔نانی امی اس کا انداز سمجھتے ہوئے ہنس پڑیں۔سعدکے سر پر ہاتھ پھیر کر پیار کرتے ہوئے انہوں نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔نانی امی اس سے رسمی قسم کی باتیں پوچھنے لگیں۔اس کے پاپاکیا کرتے ہیں۔وہ لوگ کتنے بہن بھائی ہیں‘وہ کون سی کلاس میں پڑھتا ہے وغیرہ۔
“تمھارادوست پہلی مرتبہ آیا ہےاور تم اس کی کچھ خاطر بھی نہیں کررہیں۔“ نانی امی نے سعد سے باتیں کرتے کرتےاسے ٹوکا۔
سعد سے تو وہ اردو میں بات کرہی رہی تھیں۔مگر فریاسے بھی یہ جملہ اردو میں کہا گیا تھا‘وہ فورا ہی سر ہلاتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئی تھی۔سعد کے لیے اس کا اردو جاننا کافی حیرت انگیز تھا‘براہ راست کچھ پوچھنا یا تجسس کا اظہار کرنا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھامگر دل ہی دل میں حیران ہورہا تھا۔اس سے پہلے جب اس نے دو تین مرتبہ فریا کو نانی امی کے ساتھ پارک جاتے ہوئے دیکھا تھا تو واضح طور پر ان دونوں کے درمیان رشتہ کا تعین نہیں کرپایا تھا۔لیکن آج تو یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ وہ اس کی نانی ہیں۔ایک مکمل پاکستانی خاتون اور فریا فارنر۔۔۔
صرف شکل و صورت ہی نہیں بلکہ وہ اپنے ہر انداز سے غیرملکی لگتی تھی۔ایسے جیسےیہاں کے لوگ‘یہاں کا رہن سہن سب اس کے لیے بلکل اجنبی ہیں لیکن اس کے کچھ پوچھے بغیر انہوں نے خود ہی بعض باتوں کے بارے میں اس کی حیرت دور کردی تھی۔
“فریا کے ماما ، پاپا کی ڈیتھ ہوگئی ہے۔بس اس کی زندگی تھی جو یہ اس روز ان لوگوں کے ساتھ گاڑی میں نہیں تھی۔لیکن اس حادثے نے اسے ذہنی طور پر بہت خوفزدہ اور اکیلا کردیا ہے۔اپنے ہنستے بولتے چاکلیٹس اور کھلونے لانے کا وعدہ کرکے جانے والے ماما پاپا کو واپس آنے پر جب اس نے مرا ہوا دیکھا تو یہ اس صدمے کو برداشت نہیں کرپائی۔اس کے لیے ابھی تک جیسے یہ بات بڑی ناقابل یقین سی ہےکہ ماما،پاپا اس کے لیے کھلونے اور چاکلیٹس لانے کے بجائے کہیں اور چلے گئے ہیں۔“بولتے بولتے ان کی آواز کچھ بھرا سی گئی اس لیے وہ خاموش ہوگئی تھیں۔
سعد کو فریا کا بات بات پر رو پڑنا اور خوفزدہ ہوجانا‘سمجھ میں آنے لگاتھا۔وہ دل میں اس کے لیے بہت سا دکھ محسوس کرتے ہوئے خود بھی چپ بیٹھا ہوا تھا۔فریا کو ٹرے اٹھائے لاونج میں آتا دیکھ کر نانی امی نے جلدی سے اپنے چہرے کے تاثرات کو نارمل کیا تھا۔سعد بھی قصدا مسکرا دیا۔
“تمہیں اسٹرابیری فلیور پسند ہے ناں۔“ وہ شیشے کا نازک سا آئس کریم کپ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھنے لگی۔
“بہت زیادہ پسند ہے‘صرف آئسکریم نہیں بلکہ جیم بھی مجھے اسٹرابیری کا ہی پسند ہے اور اسٹرابیری کے شیک کی تو کیا بات ہے۔“وہ کپ اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے بولا۔
وہ اپنے پسندیدہ فروٹ کی اس کے منہ سے تعریف سن خوش ہوگئی تھی۔
آئس کریم ختم کرتے ہی سعد اٹھ گیا۔وہ اسے چھوڑنے باہر تک آئی۔“خیال رکھنا‘ اب یہ کہیں دوبارہ سے باہر نہ نکل جائے۔“ سعد نے بھی اس کی نانی امی کی طرح اس سے اردو میں کہا تھا۔
وہ اس کی بات سن کر اپنے ساتھ چلتی کینڈی کو دیکھ کر مسکرا دی۔
“سعد! تم اسکیٹنگ بہت اچھی کرتے ہو۔میں نے ایک بار کرنے کی کوشش کی تھی۔فورا ہی گر پڑی تھی۔“
وہ گیٹ سے باہر نکلا تو اس کا تعریفی جملہ کانوں سے ٹکرایا۔
“اور سائیکلنگ اچھی نہیں کرتا؟“ اس نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
“جوکر لگتے ہو ہاتھ چھوڑ کر سائیکلنگ کرتے ہوئے۔ایسے کرتب تو جوکر دیکھاتے ہیں۔“وہ صاف گوئی سے بولی تو اس کا منہ بن گیا۔
“کتنے لڑکے میرے اس اسٹائل سے امپریس ہوتے ہیں‘تمہیں پتہ ہے۔“
“وہ امپریس ہونے والے بھی تمہاری طرح کے جوکر ہوں گے۔“وہ اس کی بات پر بڑے اطمینان سے بغیر متاثر ہوئے بولی۔
“میں سوچ رہا تھا کہ تمہیں ان چھٹیوں میں اسکیٹنگ سیکھا دوں گا۔لیکن اب تو کبھی بھی نہ سیکھاؤں۔“وہ منہ بگاڑ کر بولتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا۔جب کے وہ مسکراتی ہوئی واپس اندر آگئی۔[/align:79d89e2db3]

♥♥♥♥♥​
 

امن ایمان

محفلین
[align=justify:e5b12bb9c9]“فری!“ ماما اسے آواز دے رہی تھیں۔“تمہاری فائن آرٹس کی ٹیچر تمہاری بہت تعریف کررہی تھیں۔“ماما اور پاپا دونوں اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔“اس بار ہم فری کی برتھ ڈے بہت مختلف انداز میں منائیں گے۔“پاپا نے مسکراتے ہوئے ماما سے کہاتھا۔خدیجہ آنٹی کچن سے مسکراتی ہوئی نکلی تھیں اور ان لوگوً کے پاس آکر بیٹھ گئی تھیں۔
گاڑی بہت تیز رفتاری سے چل رہی تھی۔پاپا گاڑی ڈرائیوکررہے تھے۔ماماان کے برابر بیٹھی ہوئی تھیں۔“پہلے فری کے کھلونے لے لیتے ہیں۔باقی شاپنگ بعد میں کریں گے۔“ماما نےپاپا سے کہا۔انہوں نے مسکراتے ہوئے سرہلادیا۔
اچانک ایک زوردار دھماکا ہوا تھا‘ماماپاپاخون میں نہائے گاڑی میں بےہوش پڑے تھے۔
“فری! تمہارے مامااورپاپاکو اللہ تعالی نے اپنے پاس بلالیاہے۔“خدیجہ آنٹی نے روتے ہوئے اس گلے سے لگایا تھا۔
“یہ تمہارے ناناہیں فری۔“ وہ اسپتال کے بستر پر پڑی تھی۔خدیجہ آنٹی نےایک اجنبی صورت آدمی سے اس کا تعارف کروایا۔
“میں کہیں نہیں جاؤں گی۔میں ان کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔مجھےپاکستان نہیں جانا۔میرےپاپاکوبلائیں خدیجہ آنٹی!میرےماماپاپاکوبلائیں۔“وہ چیخ چیخ کر رونےلگی۔
“فری!کیا ہوگیا ہےبیٹا!اٹھو شاباش آنکھیں کھولو۔“کوئی بہت دور سے اسے آوازیں دے رہاتھا۔بڑی مشکلوں سےروتے ہوئےاس نے آنکھیں کھولیں اپنے برابر میں بیٹھی نانی امی کودیکھ کر وہ یک دم چپ ہوگئی۔
انہوں نے اٹھ کر لائٹ آن کی اور پھر دوبارہ اس کے پاس آگئیں۔اسے خود سے لپٹا کر لیٹتے ہوئے انہوں نے اس پر کچھ پڑھ کر پھونکا۔
“نیند نہیں آرہی؟“ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئےانہوں نے آہستہ آواز میں پوچھاتو اس نے سر ہلا دیا‘جس روز سے وہ یہاں آئی تھی نانی امی اس کے پاس ہی سوتی تھیں۔
ان کی اتنے دنوں کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں وہ ان سے کسی حد تک ابےتکلف ہوگئی تھی۔اب وہ اکثر ان کے ساتھ باتیں بھی کرلیا کرتی تھی۔اس وقت بھی اس کا خوف دور کرنے کی خاطر وہ اس سے باتیں کرنے لگی تھیں۔[/align:e5b12bb9c9]

♥♥♥♥♥​
 

امن ایمان

محفلین
[align=justify:c1d8e76bcd]وہ بڑی خوشگوار حیرت میں کھڑی اپنی ماماکے بچپن کی تصویریں دیکھ رہی تھی۔
کل رات اس سے باتیں کرتے ہوئے نانی امی نے اس سے اس کے ماماپاپا کے بارے میں بہت ساری باتیں کی تھیں۔
شروع شروع میں اسے مامااور پاپا کا نام سنتے ہی رونا آنے لگتامگراب وہ آنسوبہانے کے بجائے ان کے بارے میں باتیں سننا پسند کرنے لگی تھی۔بڑااچھا لگتا تھا جب اسے نانی امی‘ اس کی ماما کا محبت سے ذکر کرتیں۔ان کے لہجے کی محبت اور آنکھوں کی نمی شروع دن ہی اسے یہ بات بتا گئی تھی کہ جانے والی وہ ہستی جو اُس کی ماں تھی‘وہ انہیں بھی اتنی بلکہ شاید اس سے کچھ بڑھ کر ہی عزیز تھی۔وہ اسے ماما کے بچپن کی باتیں بتا رہی تھیں۔
“بڑی شرارتی تھی وہ۔اس کی شرارتوں سے سب پناہ مانگا کرتے تھے۔بہت ذہین اور حاضرجواب‘ اس کے ٹیچرز تک اس کی حد درجہ ذہانت سے خائف رہا کرتے تھے۔اور اپنے پاپا کی تو لاڈلی بیٹی تھی وہ۔مجال ہے جو تمہارے ناناابا اس کی کوئی فرمائش ٹال دیں۔مجھے تو ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں ان کے بے جا لاڈ پیار کی وجہ سے وہ ضدی اور سرکش نہ ہوجائے۔مگر میری ان باتوں کی وہ دونوں ہی پرواہ نہیں کرتےتھے۔ایسے باپ بیٹی تو میں نےکہیں دیکھے ہی نہیں۔دونوں بالکل دوستوں کی طرح رہتے تھے۔ہرگیم شرط لگا کرکھیلتے تھے۔چاہے وہ کارڈز ہوں‘شطرنج ہو یا کوئی آؤٹ ڈور گیم ہی کیوں ہو‘اور وہ ضوفشاں اکثر گیمز بے ایمانی سے جیت لیا کرتی تھی اور وہ تمہارے نانا ابا اس کے بے ایمانی فورا پکڑ بھی لیا کرتے تھے۔پھر دونوں میں بچوں کی طرح جھگڑاہوتاتھا۔نہ وہ اپنی بے ایمانی تسلیم کرتی تھی اور نہ یہ اسکی جیت‘ آخرکار مجھے ہی امن کی فاختہ بننا پڑتا تھا۔لیکن دونوں منہ پھلائے ایک دوسرے سے ناراض یہ اعلان کرتے تھے کہ آئندہ آپس میں کوئی کھیل نہیں کھیلیں گے۔میں کہتی یہ تو بہت اچھی بات ہے۔نہ کھیلیں گے اور نہ بچوں کی طرح جھگڑیں گے۔مگر حیرت تو مجھے تب ہوئی جب اگلے ہی روز وہ دونوں اپنے اپنے دعووں کی نفی کرتے دوبارہ کھیلنے کے لیے آمادہ نظر آتے۔
وہ یونیورسٹی میں آگئی تھی تب بھی ان کے ساتھ بالکل بچپن والے ہی انداز میں رہتی تھی۔ویسے ہی بچپن کی طرح لاڈ اٹھواتی تھی۔ وہاں پر بھی اس کا وہی اسکول جیسا ہی اسٹائل تھا۔یونیورسٹی سے آکر جب تک دن بھر کی روداد مجھے اور اپنے پاپا کو سنا نہیں لیتی‘اسے چین نہیں آتاتھا۔یونیورسٹی میں بھی وہ ہر دل عزیز تھی۔اپنے ڈپارٹمنٹ کی سب سے ذہین اور جینئس اسٹوڈنٹ‘ ہم دونوں کے پیچھے لگی رہتی تھی کہ آپ لوگ کبھی کیمپس آئیں اور میرے ٹیچرز سے میرے بارے میں پوچھیں۔
“جرنلزم ڈپارٹمنٹ میں آکرصرف ضوفشاں فاروق کا نام لیں نہ کلاس بتانے کی ضرورت پڑے گی نہ دیگر کوئی اور تفصیل اور سامنے موجود بندہ فورا ہی سمجھ جائے گا کہ یہ کس لڑکی کا ذکر ہورہاہے۔اور جب آپ اسے بتائیں گے کہ آپ میرے ممی پاپا ہیں تو دیکھیےگا وہ آپ دونوں سے بھی متاثر نظر آنا شروع ہوجائے گا۔بڑی مشہور ہوں میں اپنے ڈپارٹمنٹ میں‘بلکہ پوری آرٹس فیکلٹی میں‘ لوگ مجھے میری ذہانت کی وجہ سے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔“
وہ گردن اکڑا کر یہ بات اتنے معصومانہ انداز میں بتاتی کہ ہم دونوں پھر اس کے انداز پر کتنی دیر تک ہنستے رہتے تھے۔تمہارے نانا ابا اسے چڑانے کے لیے کہتے“اپنے منہ سے اپنی تعریفیں پتا ہے کون لوگ کرتے ہیں- سچی تعریف وہ ہوتی ہے جو کوئی دوسرا کرےاور وہ بھی پیٹھ پیچھے۔
ہم تو اس روز مانیں گے جب ضوفشاں فاروق ایم اے جرنلزم فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کی ڈگری بمعہ گولڈ میڈل کے ہمارے سامنے آکر کھڑی ہوگی۔“ اور وہ بڑے عزم سے یہ چلینج قبول کر لیتی۔
وہ اسے اس کی ماما کے بارے میں کتنی ساری ایسی باتیں بتا رہی تھیں جو اس سے پہلے کبھی بھی اس کے علم میں نہیں آئی تھیں۔
اس نے اپنی زندگی کے دس سال ماما اور پاپا کے ساتھ گزارے تھے۔نانی امی کہہ رہی تھیں کہ وہ بہت شرارتی تھیں لیکن اس نے تو انہیں بہت سنجیدہ اور سوبر سا دیکھا تھا۔ بڑی کم گو سی تھیں اس کی ماما۔اس کی یاداشت اور نانی امی کا بیان ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ لیکن پھر بھی اسے ان باتوں میں بہت دلچسپی محسوس ہورہی تھی۔ یہ باتیں اس کی ماما کی تھیں ان کے بچپن کی‘ ان کے کالج اور پھر یونیورسٹی لائف کی باتیں تھیں اور انہیں سننا اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اگلے روز نانی امی سے فرمائش کرکے اس نے ماما کی بچپن کی تصویریں نکلوائی تھیں۔
ڈھیر سارے البمز اپنے اردگرد پھیلائے وہ اپنی ماما کو ہنستا کھلکھلاتا ہوا بڑی محویت سے دیکھ رہی تھی۔ہر تصویر میں وہ نانی امی کے مقابلے میں ناناابا کےزیادہ قریب نظر آرہی تھیں۔واقعی ان دونوں کا انداز بالکل دوستوں والا لگ رہا تھا۔

وہ تصویروں میں نانا ابا کو ہنستا دیکھ کر بہت حیران ہورہی تھی۔جب سے وہ یہاں آئی تھی ہنسنا تو دور کی بات اس نے انہیں باتیں کرتا ہوا ہی بہت کم دیکھا تھا۔اس سے تو وہ خیر سوائے رسمی باتوں کے کوئی اور بات ہی نہیں کرتے تھےمگر نانی امی سے بھی ان کی گفتگویوں ہوا کرتی تھی کہ وہ اکیلی بولتی رہتی تھیں اور وہ سوائے کسی انتہائی جواب طلب بات پر کچھ بولنے کے گھنٹوں چپ بیٹھے انہیں سنتے رہتے تھے۔
وہ لان میں بیٹھی تصویریں دیکھ رہی تھی۔ اسی وقت پورچ میں آکر گاڑی رکی تھی۔کچھ دیر بعد اس نے ناناابا کو اندر جاتے دیکھا تو جو البم اس کے ہاتھوں میں تھا وہی اٹھا کر ان کے پیچھے بھاگتی ہوئی آئی۔اس کا دل چاہا تھا کہ نانی امی کی طرح ناناابا سے بھی وہ اپنی ماما کی باتیں سنے۔ان کے پاس تو سنانے کے لیے اور بھی مزے مزے کی باتیں ہوں گی۔وہ تو اس کی ماما کے بیسٹ فرینڈ تھے۔
اس نے ان ہی تصویروں میں سے ایک تصویر میں ماما کو نانا کو ایک کارڈ دیتے دیکھا تھا جس پر پورا جملہ تو نہیں پڑھا جارہا تھا مگر My Best Friend لکھا ہوا ضرور نظر آرہاتھا وہ یونہی بھاگتی ہوئی ان کے کمرے میں گھسی۔وہ ٹیلی فون پر کوئی نمبر ڈائل کررہے تھے۔اسے یوں بھاگ کر آتا دیکھ کر بے ساختہ رک گئے۔
“دیکھیں ناناابا! یہ تصویریں کتنی اچھی لگ رہی ہیں۔“ ان کے برابر بیٹھتے ہوئے اس نے کھلے البم میں موجود پکنک والی تصویر کی طرف اشارہ کیا۔انہوں نے صرف ایک نظر تصویر پر ڈالی اور فورا ہی اپنی نظریں واپس ہٹا لیں۔
وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ تصویر دیکھ کر خوب ہنسیں گے اور پھر اسے پکنک کے مزے دار واقعات سنائیں گے‘مگر وہ تو عجیب سرد سی نظروں سے دیکھنے لگے۔
“میں اس وقت بہت ضروری فون کر رہا ہوں فریا۔“ چند لمحوں بعد انہوں نے اس پر سے نظریں ہٹا کر ریسیور دوبارہ اٹھا لیاتھا۔ وہ ان کے سردوسپاٹ سے انداز پر بددل سی ہوگئی۔
“آئندہ میرے کمرے میں آتے وقت دروازہ ناک کرکے آنا۔“ دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے ان کی آواز سنی تھی۔بالکل خشک اور بے تاثر سی آواز‘ وہ ان کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل آئی۔اس کے حساس دل پر بڑی گہری چوٹ لگی تھی۔وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں آگئی۔
“ناناابا ایسے کیوں ہیں؟“ اس نے پہلی بار بڑی سنجیدگی سے سوچاتھا۔[/align:c1d8e76bcd]
 

امن ایمان

محفلین
[align=justify:3f87368a73]پہلی مرتبہ اسے ایسا لگا تھا جیسے وہ اس سے نفرت کرتے ہیں۔اور کسی کے دل میں اپنے لیے نفرت دریافت کرنا کوئی خوشگوار تجربہ نہیں۔اسی لیے وہ بیڈ پر گر کر بےآواز رونے لگی۔کچھ دیر پہلے وہ ماماکی تصویریں دیکھتے ہوئے بہت خوش تھی اور اب اسے سوائے رونے کے اور کچھ سوجھ ہی نہیں رہاتھا۔نانی امی کچھ ہی دیر میں اسے ڈھونڈتی ہوئی کمرے میں آگئیں۔ان کی آہٹ پاتے ہی اس نے تکیے میں منہ چھپائے اپنے آنسو صاف کرڈالے۔وہ ان سے اپناروناچھپالینا چاہتی تھی۔
“کیا ہوا بیٹا؟“ وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھنے لگیں۔
“میں بہت بور ہورہی ہوں نانی امی ! آخر یہ چھیٹیاں کب ختم ہوں گی۔“ اس نے اسی طرح لیٹے لیٹے کہا۔“چلو کہیں باہر چلتے ہیں۔“وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولیں۔وہ اٹھی تو ان کی نظر اس کے روئے ہوئے چہرے پر پڑی۔وہ رو رہی تھی اور اپنے رونے کو ان سے چھپا بھی رہی تھی۔ ان کا دل اندر ہی اندر رودیا۔لیکن بظاہر انہوں نے ایسے ظاہر کیا جیسے اس کے رونے کا ان کو پتہ ہی نہیں چلاہو۔
“میں سعد کے گھر چلی جاؤں نانی امی؟“ اس روز کے بعد اس کی سعد سے ملاقات ہی نہیں ہوئی اور ابھی اچانک ہی اسے خیال آیا۔ وہ اجازت دینے میں کچھ متذبذب تھیں۔
“مجھے اس کاگھر معلوم ہے۔اسلم کو ساتھ لے جاتی ہوں۔“ وہ بیڈ پر سے اتر کر اپنے کپڑوں کی شکنیں درست کرتے ہوئے بولی۔
“زیادہ دیر نہیں لگانا۔“ کچھ سوچتے ہوئے بالآخر انہوں نے اجازت دے ہی دی۔اسلم اور کینڈی کو لیے وہ اس کے گھر پہنچ گئی۔اتفاق سے گیٹ پر ہی اس کی زوہیب سے ملاقات ہوگئی۔
“سعد ہے؟۔“ سلام دعا کے فورا بعد اس نے سعد کے بارے میں پوچھا۔
“بھائی تو اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں گیا ہوا ہے۔“زوہیب کے جواب سے اسے بڑی مایوسی ہوئی تھی۔ وہ واپس جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ وہ جلدی سے بولا۔
“آپ اندر تو آئیں-“
“نہیں۔ میں چلتی ہوں پھر کبھی آجاؤں گی۔“ اس نے انکار کیا تھامگر زوہیب دوبارہ اصرار سے اندر بلانے لگا۔
“میں اور ممی تو ہیں گھر پر۔آپ ہم لوگوں سے مل لیں۔“کچھ سوچ کر وہ زوہیب کے ساتھ اندر آگئی۔ اس کی ممی لان میں بیٹھی ہوئی تھیں۔[/align:3f87368a73]
 
Top