امین شارق
محفلین
الف عین سر
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
وہ خُوشبوئے سر و سمن اب کہاں ہے؟
یہ پُوچھو خِزاں سے چمن اب کہاں ہے؟
گلے مِل کے دِل سے لگاتی ہے دُنیا
دِلوں میں مگر حُسنِ ظن اب کہاں ہے؟
کسی کو مُصیبت میں ہیں دیکھتے پر
جبینوں پہ پڑتی شِکن اب کہاں ہے؟
یہ دُنیا ہے فانی ہوس کی پُجاری
یہاں پر وہ شوق و لگن اب کہاں ہے؟
ہیں تم نے تو دیکھے زمانے ازل سے
شرافت اے چرخِ کہن! اب کہاں ہے؟
نہ اب کوئی لیلیٰ سی سچی محبت
کہاں قیس اور اس کا بن اب کہاں ہے؟
نہ شِیریں کوئی عِشق میں اب ملے گی
وہ فرہاد سا کوہکن اب کہاں ہے؟
کہاں جُھوٹی دُنیا میں منصُور سچے
تماشائے دار و رسن اب کہاں ہے؟
نہ کیوں پہلے روکا تباہی سے خود کو
اے برباد جنگل! ہرن اب کہاں ہے؟
سمندر جو پہلے تھا ایماں کا مُسلم
ترے سِینے میں موجزن اب کہاں ہے؟
کہاں میر و غالب سے شاعر رہے اب
دِلوں کو جو بھائے سُخن اب کہاں ہے؟
جہاں پر مِلا کرتے تھے یار سارے
مرے یار وہ انجمن اب کہاں ہے؟
مزا ہی نہیں اب ترے ساتھ جی کر
اے عمرِ رواں بانکپن اب کہاں ہے؟
ہوئی رُوح آزاد جب سے بدن سے
دُھواں چھٹ گئے ہیں گُھٹن اب کہاں ہے؟
جِسے سُن کے کہتے تھے ہم واہ شارؔق
تری شاعری میں وہ فن اب کہاں ہے؟
یہ پُوچھو خِزاں سے چمن اب کہاں ہے؟
گلے مِل کے دِل سے لگاتی ہے دُنیا
دِلوں میں مگر حُسنِ ظن اب کہاں ہے؟
کسی کو مُصیبت میں ہیں دیکھتے پر
جبینوں پہ پڑتی شِکن اب کہاں ہے؟
یہ دُنیا ہے فانی ہوس کی پُجاری
یہاں پر وہ شوق و لگن اب کہاں ہے؟
ہیں تم نے تو دیکھے زمانے ازل سے
شرافت اے چرخِ کہن! اب کہاں ہے؟
نہ اب کوئی لیلیٰ سی سچی محبت
کہاں قیس اور اس کا بن اب کہاں ہے؟
نہ شِیریں کوئی عِشق میں اب ملے گی
وہ فرہاد سا کوہکن اب کہاں ہے؟
کہاں جُھوٹی دُنیا میں منصُور سچے
تماشائے دار و رسن اب کہاں ہے؟
نہ کیوں پہلے روکا تباہی سے خود کو
اے برباد جنگل! ہرن اب کہاں ہے؟
سمندر جو پہلے تھا ایماں کا مُسلم
ترے سِینے میں موجزن اب کہاں ہے؟
کہاں میر و غالب سے شاعر رہے اب
دِلوں کو جو بھائے سُخن اب کہاں ہے؟
جہاں پر مِلا کرتے تھے یار سارے
مرے یار وہ انجمن اب کہاں ہے؟
مزا ہی نہیں اب ترے ساتھ جی کر
اے عمرِ رواں بانکپن اب کہاں ہے؟
ہوئی رُوح آزاد جب سے بدن سے
دُھواں چھٹ گئے ہیں گُھٹن اب کہاں ہے؟
جِسے سُن کے کہتے تھے ہم واہ شارؔق
تری شاعری میں وہ فن اب کہاں ہے؟