وہ رات جب ستارے گرے ۔۔۔۔
ایک موسم گرما کی رات ، سمندر کے کنارے، ایک چھوٹےگھر میں ، ایک ننھے بچے نے اپنے آپ کو اُٹھاتا ہوا محسوس کیا۔ نیند میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سےاس نے سننا کہ ماں کہہ رہی تھی اس کو سونےدو، اتنی رات ننھےکیوں اٹھاتے ہو۔ تب اس نےاپنے اباجان کے ہنسنے کی آواز سننی۔ اچانک وہ ابا کی گود میں تھا۔ خوابوں کی جیسی پھرتی سے وہ برآمدہ سےگزرتا ہوا ساحل سمندر پر پہنچا۔
آسمان ستاروں سی دہک رہا تھا۔
" دیکھو! " جب اس کےابو نے کہنا شروع کیا ایک ستارہ اپنی جگہ سے ہلا۔ ستارہ ایک سنہرے شعلہ کی لکیر کی طرح اچنبھے ہوئے آسمانوں کو چمکاتے ہوئے سمندر کی طرف دوڑ١ اور اس سے پہلے کہ یہ معجزہ سطح سمندر کوچھولے۔ ایک نئےستارہ نےاس کی جگہ لےلی۔ پھر اس کے بعد تیسرا اور چوتھا ستارہ سمندر کی طرف لپکا۔
“ ابا یہ کیا ہے؟“
" شہاب ثاقب “ ۔ وہ ہر سال اگست کی بعض راتوں میں آتے ہیں ۔ میں نےسوچا کہ تم اس تماشہ کو پسند کرو گے“ ۔ باپ نے کہا۔
بس صرف اتنا ۔ ایک سحری، پرسرار اور خوبصورت سماں کی جھلک ۔ لیکن اس کے بعد وہ بچہ اپنے بستر پر بیٹھا بہت دیر تک اندھیرے میں دیکھتا رہا۔ اس علم کو دیکھتا رہا جو اس نے اس رات حاصل کیا کہ اس چھوٹے سے خاموش گھر کے اردگرد رات گرتے ہوے ستاروں کا خوبصورت راگ گنگنا رہی تھی۔
دسیوں سال گزر گے ہیں۔ لیکن آج بھی مجھے وہ رات اسی طرح یاد ہے۔ جیسے ستارے آج کی رات گرے ہیں۔۔۔
میں وہ سات سالہ بچہ تھا جس کے باپ کو یہ علم تھا کہ ایک ٹوٹا ہوا ستارہ ایک رات کی ٹوٹی ہوی نیند سے بہتر تھا۔ ایک نیا تجربہ ایک نیا علم ۔ میں نے میرے بچپن میں بہت سے کھیل کھیلے جس طرح دوسرے بچے کرتے ہیں۔ ان میں سے کافی میں بھول گیا ہوں۔ لیکن مجھے وہ یاد ہیں جب میں نے بکری کا دودھ دوہا تھا ، جب سرکس میں ایک بندھے ہوئے شیر کی کھال کو چھوا تھا، جب میں نے ساحل سمندر پر سیپ جمع کی تھیں ۔ اور ان سے ماں کا کچن سجایا تھا۔
مجھے وہ سب کتابیں بھی یاد ہیں ۔ جو امی چپکےسے میرے بستر کے پاس رکھ جاتی تھیں۔میں نے ان میں سے ایک کتاب میں ایک نئے براعظم کے متعلق پڑھا ۔
“ ماں یہ تو بڑی پیاری جگہ ہے۔ “
“ کیا تم وہاں جانا چاہو گے!“
“ ہاں ماں“۔
“ تب تم ضرور جاو گے“۔
اور آج میں وہاں ہوں
تو پھر والدین ہونے کیا مقصد ہے؟ ۔ بچوں کے لیے نئے دروازے کھولنا۔ ان میں شوق، تمنا اور جوش ولولہ پیدا کرنا ۔ انہیں زندگی سے پیار کرنا سکھانا۔ انہیں اس دنیا سے محبت کرنا سکھانا۔ اللہ کی بنای ہوئی چیزوں پرحیرت خیز ہونا سیکھانا۔ یہ دولت، یہ گھر یہ سب وہ خود بھی بنائیں گے۔ مگر شکر کرنا، اچنبھا ہونا، پیار کرنا، خوش بشاش رہنا، اپنے کو زندہ محسوس کرنا، یہ سب سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے۔
اس رات کو بہت سال گزرگے جب ستارے گرے تھے ۔۔۔
لیکن زمین اب بھی گھومتی ہے۔۔۔
سورج اب بھی غروب ہوتا ہے۔۔۔
رات اب بھی سمندر پر پھیلتی ہے۔۔۔
اور اس سال جب اگست ستاروں کا خوبصورت نظارہ لائے گی ۔ میرا بیٹی سات سال کی ہوگی ۔۔۔
ایک موسم گرما کی رات ، سمندر کے کنارے، ایک چھوٹےگھر میں ، ایک ننھے بچے نے اپنے آپ کو اُٹھاتا ہوا محسوس کیا۔ نیند میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سےاس نے سننا کہ ماں کہہ رہی تھی اس کو سونےدو، اتنی رات ننھےکیوں اٹھاتے ہو۔ تب اس نےاپنے اباجان کے ہنسنے کی آواز سننی۔ اچانک وہ ابا کی گود میں تھا۔ خوابوں کی جیسی پھرتی سے وہ برآمدہ سےگزرتا ہوا ساحل سمندر پر پہنچا۔
آسمان ستاروں سی دہک رہا تھا۔
" دیکھو! " جب اس کےابو نے کہنا شروع کیا ایک ستارہ اپنی جگہ سے ہلا۔ ستارہ ایک سنہرے شعلہ کی لکیر کی طرح اچنبھے ہوئے آسمانوں کو چمکاتے ہوئے سمندر کی طرف دوڑ١ اور اس سے پہلے کہ یہ معجزہ سطح سمندر کوچھولے۔ ایک نئےستارہ نےاس کی جگہ لےلی۔ پھر اس کے بعد تیسرا اور چوتھا ستارہ سمندر کی طرف لپکا۔
“ ابا یہ کیا ہے؟“
" شہاب ثاقب “ ۔ وہ ہر سال اگست کی بعض راتوں میں آتے ہیں ۔ میں نےسوچا کہ تم اس تماشہ کو پسند کرو گے“ ۔ باپ نے کہا۔
بس صرف اتنا ۔ ایک سحری، پرسرار اور خوبصورت سماں کی جھلک ۔ لیکن اس کے بعد وہ بچہ اپنے بستر پر بیٹھا بہت دیر تک اندھیرے میں دیکھتا رہا۔ اس علم کو دیکھتا رہا جو اس نے اس رات حاصل کیا کہ اس چھوٹے سے خاموش گھر کے اردگرد رات گرتے ہوے ستاروں کا خوبصورت راگ گنگنا رہی تھی۔
دسیوں سال گزر گے ہیں۔ لیکن آج بھی مجھے وہ رات اسی طرح یاد ہے۔ جیسے ستارے آج کی رات گرے ہیں۔۔۔
میں وہ سات سالہ بچہ تھا جس کے باپ کو یہ علم تھا کہ ایک ٹوٹا ہوا ستارہ ایک رات کی ٹوٹی ہوی نیند سے بہتر تھا۔ ایک نیا تجربہ ایک نیا علم ۔ میں نے میرے بچپن میں بہت سے کھیل کھیلے جس طرح دوسرے بچے کرتے ہیں۔ ان میں سے کافی میں بھول گیا ہوں۔ لیکن مجھے وہ یاد ہیں جب میں نے بکری کا دودھ دوہا تھا ، جب سرکس میں ایک بندھے ہوئے شیر کی کھال کو چھوا تھا، جب میں نے ساحل سمندر پر سیپ جمع کی تھیں ۔ اور ان سے ماں کا کچن سجایا تھا۔
مجھے وہ سب کتابیں بھی یاد ہیں ۔ جو امی چپکےسے میرے بستر کے پاس رکھ جاتی تھیں۔میں نے ان میں سے ایک کتاب میں ایک نئے براعظم کے متعلق پڑھا ۔
“ ماں یہ تو بڑی پیاری جگہ ہے۔ “
“ کیا تم وہاں جانا چاہو گے!“
“ ہاں ماں“۔
“ تب تم ضرور جاو گے“۔
اور آج میں وہاں ہوں
تو پھر والدین ہونے کیا مقصد ہے؟ ۔ بچوں کے لیے نئے دروازے کھولنا۔ ان میں شوق، تمنا اور جوش ولولہ پیدا کرنا ۔ انہیں زندگی سے پیار کرنا سکھانا۔ انہیں اس دنیا سے محبت کرنا سکھانا۔ اللہ کی بنای ہوئی چیزوں پرحیرت خیز ہونا سیکھانا۔ یہ دولت، یہ گھر یہ سب وہ خود بھی بنائیں گے۔ مگر شکر کرنا، اچنبھا ہونا، پیار کرنا، خوش بشاش رہنا، اپنے کو زندہ محسوس کرنا، یہ سب سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے۔
اس رات کو بہت سال گزرگے جب ستارے گرے تھے ۔۔۔
لیکن زمین اب بھی گھومتی ہے۔۔۔
سورج اب بھی غروب ہوتا ہے۔۔۔
رات اب بھی سمندر پر پھیلتی ہے۔۔۔
اور اس سال جب اگست ستاروں کا خوبصورت نظارہ لائے گی ۔ میرا بیٹی سات سال کی ہوگی ۔۔۔