وہ رات

فہیم

لائبریرین
وہ ہفتے کی رات تھی۔جب میرے دماغ میں کیڑے کلبلائے کے کہیں جانا چاہیے۔
میں نے اپنے دوست عرفان کو موبائل پر فون کیا کہ کہاں ہو۔
عرفان اس وقت اپنے گھر پر تھا۔میں نے اسے وہیں رکنے اور میرا انتظار کرنےکو کہا۔اور باتھ روم میں گھس گیاجلدی جلدی نہاکر اور تیار ہوکر میں نے بائیک نکالی اور عرفان کے گھر کی طرف چل پڑا۔عرفان کے گھر کا فاصلہ میرے گھر سے بمشکل پندرہ منٹ کا تھا۔جب میں اس کے گھر پہنچا تو ساڑھے نو کا وقت ہورہا تھا۔ہاں عرفان کیا موڈ ہے۔میں نے اس سے پوچھا۔جواب میں اس نے مجھے ایسے گھورا جیسے میرے سر پر اچانک سینگ نکل آئےہوں۔موڈ میرا موڈ تو آرام کرنے کا ہے اس نے کہا۔ارے تم نے مجھے فون کیا ہے کے میں آرہا ہوں میرا انتظار کرو۔اور آکر میرے سے ہی موڈ پوچھ رہے ہو۔اچھا میرا موڈ ہے کہیں گھومنے پھرنے کا میں نےکہا۔تو بس جلدی سے تیار ہوجا۔پہلے تو میری اس بات پر اس نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔لیکن جب میں نے اس کی ران پر ایک کرارا ہاتھ رسید کرکے یہ بات کی تھی۔وہ جھلا کر اٹھ گیا۔اس کے تیار ہونے تک میرے پاس کوئی کام نہیں تھا۔اس لیے میں نے صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کرلیں۔اور جب تک ایسے ہی رہا جب عرفان نے آکر میرا شانہ پکڑ کر ہلایا اور کہا کہ کیا سوگیا ہے۔جواب میں میں نے آنکھیں کھول دیں۔گھڑی پر نظر گئی تو دس بجے سے بھی تھوڑا اوپر ٹائم ہوگیا تھا۔ اتنی دیر لگائی تیار ہونے میں، میں نے اسے گھور کر کہا۔چل بھئی ہوتو گیا۔اب تو کیوں خوامخواہ ٹائم ضائع کررہا ہے۔چلو میں نے کہا۔ میں نے ایک گلاس ٹھنڈا پانی پیا اور ہم نکل آئے۔چونکہ میرے پاس بائیک تھی۔اس لیے عرفان نے اپنی بائیک نہیں نکالی۔اس کے گھر سے نکل کر میں نے اس سے کہا کہ کہاں چلا جائے میرے دماغ میں تو کوئی خاص جگہ نہیں بس کہیں جانے کو دل کررہا تھا۔چلو سی ویو چلتے ہیں تھوڑی ٹھنڈی ہوا کا ہی لطف لے لیں گے(یہ بتاتا چلوں کے میں صرف چند بار ہی سی ویو گیا ہوں)عرفان کے کہنے پر میں نے سی ویو جانے کا ہی فیصلہ کرلیا۔ اور بائیک کو روڈ پر نکال کر ڈاکخانے سے سیدھا تین ہٹی کی طرف لے لیا۔ساڑھے دس کا ٹائم ہورہا تھا۔لیکن ٹریفک پورے زور و شور پر تھا۔میں درمیانی سپیڈ پر بائیک چلاتا رہا۔
اور ساتھ ساتھ عرفان سے گپے ہانکتا رہا۔عرفان کو پان کی عادت ہے۔اور ہر وقت اس کی جیب میں پڑیا موجود رہتی ہے۔لیکن اس کو معلوم ہے کے مجھے پان سے چڑ ہے۔چڑ صرف اس حد تک کے میں کسی ایسے بندے سے بات کروں جس کے منہ میں پان بھرا ہو۔اور وہ ہر بات کا جواب اوں آں کرکے دے رہا ہو۔اس لیے اس بیچارے کا منہ ابھی خالی تھا۔مجھے معلوم تھا کے اسے پان کی طلب ہورہی ہوگی۔کیوں کے وہ میرے آنے سے تھوڑا پہلے ہی کھانا کھاکر فارغ ہوا تھا۔میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے پاس ببل ہوگی۔جواب میں اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں نہیں ہے اس نے کہا میں نے بائیک کو ایک پان کے کیبن کے سامنے روک دیا۔اور عرفان سے کہا کہ وہ جاکر ایک سادہ خوشبو کا پان بنواکر لائے۔چونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ میں پان کس لیے منگوارہا ہوں۔اس لیے وہ بغیر کوئی بات کیے فوراً بائیک سے اترا اور جھٹ سے پان لاکر میرے ہاتھ میں تھمادیا۔میں نے پان کھول کر منہ میں رکھا۔پتہ نہیں کتنے عرصے بعد پان منہ میں گیا تھا۔پان کے ساتھ وہ کچھ ببل بھی لے آیا تھا وہ بھی اس نے میرے ہاتھ میں تھمادیں۔جب تک میں ببل کو جیب میں ڈالتا وہ اپنی جیب سے پان کی پڑیا نکال چکا تھا۔اس نے ایک پان نکال کر اپنے کلے میں دبایا اور بائیک پر بیٹھ گیا۔اب مجھے پتہ تھا کہ سارا سفر خاموشی یا پھر اوں آں والی گفتگو میں گزرنا ہے۔میں نے بائیک اسٹارٹ کی اور آگے بڑھا دی۔جب تک ہم سی ویو پہنچے تقریباً سوا گیارہ سے ساڑھے گیارہ کا وقت تھا۔میں نے بائیک کو ایک اچھی سی جگہ پر لگایا۔اور عرفان کے ساتھ ساحل والے حصے میں آگیا۔سی ویو پر ہر ہفتے کی طرح کافی رش تھا۔جن میں لڑکے بھی تھے اور لڑکیاں بھی۔یار یہ چچھورا پائی کی جگہ لگتی ہے میرے کو پتہ نہیں کیوں۔میں نے عرفان سے کہا۔جس کا پان اب ختم ہوچکا تھا۔کیا چچھورا پائی۔بس تفریح ہے تم بھی تفریح کرو۔ہوں عرفان نے کہا۔ہم نے ریت پر ٹہلنا شروع کردیااور ایسے ہی اِدھر اُدھر کی گفتگو شروع کردی جس کا نہ سر تھا نہ پیر یار فہیم وہ دیکھ وہ لڑکی تجھے دیکھ رہی ہے۔میں کافی دیر سے نوٹ کررہا ہوں۔وہ صرف تیری طرف ہی متوجہ ہے۔عرفان کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میں نے اس طرف دیکھا جہاں کا عرفان نے اشارہ کیا تھا۔وہاں واقعی ایک لڑکی کھڑی تھی۔اور اس کی نگاؤں کا مرکز میں ہی تھا۔ میرے اس طرح اچانک دیکھنے پر وہ تھوڑا جھینپ گئی اور اس نے نگائیں میرے پر سے ہٹھا لیں۔میں نے اس کا سرسری نظروں سے جائزہ لیا۔اس کا قد میرے سے کوئی تھوڑا ہی چھوٹا ہوگا(میرا قد تقریباً پانچ فٹ نو انچ ہے)رنگت اس کی صاف تھی بلکہ اگر اسے گورا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔اس نے ہلکے جامنی کلر کا شلوار قمیض سوٹ پہنا ہوا تھااور کاندھے سے ایک کالے کلر کا پرس لٹکا ہوا تھا۔بالوں کی اس نے پیچھے کی طرف پونی باندھ رکھی تھی۔بلاشبہ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔
میں نے عرفان کو وہاں سے چلنے کا اشارہ کیا اور وہاں سے ہٹ گیا۔عجیب گھامڑ ہو تم عرفان نے چلتےہوئے مجھ سے کہا۔وہ خود تم میں دلچسپی لے رہی تھی۔اور حضرت ہیں کے بس۔دیکھ عرفان تو جانتا ہے کے مجھے ان لغویات میں دلچسپی نہیں میں نے ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔ارے تو میں کون سا کہہ رہا ہوں کے اس لڑکی کو ڈیٹ پر لے کر چلےجاتے کم از کم اس سے بات تو کرتا اچھا ہے تھوڑا ٹائم ہی گزرتا۔رہنے دے مجھے کوئی ضرورت نہیں۔میں نے بدستور ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔
ہونہہ ٹائیگر اچھا ہے میں تجھے اس نام سے نہیں پکارتا۔بچارے ٹائیگر بھی سوچتے ہونگے کے ان کا نام کیسے گھامڑ شخص کو دیا ہوا ہے۔عرفان نے یہ بات کچھ ایسے انداز میں کی کے میرے منہ سے بے ساختہ قہقہ نکل گیا۔میں نے عرفان کے ساتھ دوبارہ اسی جگہ پر آگیا جہاں لڑکی کو دیکھا تھا۔ وہاں وہ لڑکی اب موجود نہیں تھی۔میں نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو وہ لڑکی مجھے کچھ دور نظر آگئی۔ اس وقت بھی وہ اکیلی ہی تھی۔مجھے حیرت ہوئی کے وہ اکیلی کیوں ہے۔کیوں کے میرا نہیں خیال کے کوئی لڑکی تو دور کی بات لڑکا بھی اکیلا سی ویو آتا ہو۔ میں نے اس کی جانب قدم بڑھائے۔عرفان وہیں رک گیا تھا۔ایسکیوز می میم میں نے اس کے پیچھے جاکر کہا۔وہ چونک پڑی اور جب اس کی نگائیں مجھ پر پڑیں تو وہ اور زیادہ چونک پڑی۔ جی فرمائیں اس نے کہا۔ میرے دوست کا کہنا ہے کے آپ کافی دیر سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ کہیں ایسا تو نہیں آپ میرے چہرے میں اپنے کسی قرض خواہ کا چہرہ تلاش کررہی ہوں۔ اس بات پر اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں کیا پورا گھنٹہ بج اٹھا۔
نہیں جی ایسا نہیں ہے۔دراصل میں یہاں اکیلی ہوں۔اور سوچ رہی تھی کے کوئی تو ہونا چاہیے جس کے ساتھ وقت گزر سکے۔ تو آپ کو دیکھا آپ مجھے یہاں موجود لوگوں سے کافی مختلف نظر آرہے تھے۔اللہ خیر کرے کہیں میرے سر پر سینگ تو نہیں نکل آئے میں نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔اس حرکت پر وہ کھلا کھلا کر ہنس پڑی۔لیکن آپ یہاں اکیلی یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی اور کیوں میں آپ کو دوسرے لوگوں سے مختلف نظر آیا میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ آپ مجھے دوسروں سے اس لحاظ سے مختلف نظر آئے کے آپ اپنے آپ میں مگن تھے آپ کی نظریں اِدھر اُدھر نہیں گھوم رہیں تھیں۔ ورنہ آپ ابھی بھی دیکھ سکتے ہیں کے کافی لوگوں کی نظریں تو ہمارے پر بھی جمی ہوئیں ہیں۔میں نے سرسری طور پر نظریں گھمائیں تو واقعی کافی لوگ کن انکھیوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔اور آپ کے اکیلے ہونے کی وجہ میں نے کہا۔اس میں کیا بات ہے۔میں تو اکثر اکیلی ہی آتی رہتی ہوں۔اس نے کہا۔کیسے ! میرے اس سوال پر اس نے روڈ کی جانب اشارہ کیا وہ جو سلور کلر کی آلٹو کھڑی ہے وہ میری ہے اس پر۔ میں نے وہاں دیکھا تو وہاں ایک پر سلور کلر کی آلٹو کار موجود تھی۔اچھا تو یہ بات ہے لیکن آپ کے پاس کار کی موجودگی بتارہی ہے کے آپ کسی اچھی فیملی سے ہیں۔پھر آپ یہاں کیسے آپ تو اپنے گھر میں ہر قسم کی انجوائمنٹ کرسکتی ہیں۔دراصل مجھے یہ ماحول پسند ہے۔سمندر کا جھاگ بناتا پانی اور ٹھنڈی ہوا اس نے کہا۔ لیکن اسطرح اکیلے کسی کو تو ساتھ لے آتیں۔کس کو لاتی آپ بتائیں ! کسی بہن بھائی کو ! میں اپنے والدین کی اکلوتی ہوں ! کوئی فرینڈ ! ہاں فرینڈ ہیں اور کبھی کبھی ان کے ساتھ بھی آتی ہوں۔ ارے اتنی دیر سے ہم گفتگو کررہے ہیں اور ابھی تک ہم ایک دو۔۔سرےکے نام بھی نہیں جان پائے۔ویل میرا نام مہوش ہے اور میں یہیں کلفٹن کے فلیٹ میں رہتی ہوں۔اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا۔پلازہ کا نام نہ اس نے بتایا اور نہ ہی مجھے پوچھنے کی ضرورت پڑی۔ہوں میرا نام فہیم ہے اور میں یہاں صرف چند ہی بار آیا ہوں۔آج دوست کے کہنے پر اس کے ساتھ آگیا۔ہم گفتگو کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ریت پر چلتے جارہے تھے۔ارے ہاں آپ کے ساتھ وہ آپ کے دوست بھی تو تھے۔اور برا نہیں مانیے گا۔وہ بھی بات تو آپ سےکررہےتھے لیکن ان کی نگائیں بھی چاروں اطراف میں گھوم رہیں تھیں۔میں ہنس پڑا ارے نہیں وہ بہت اچھا انسان ہے بس تھوڑا بیوقوف ہے میری بات پر مہوش بھی ہنس پڑی۔ہم عرفان کی طرف چل پڑے مہوش سے باتوں کے دوران میں نے دیکھ لیا تھا کہ وہ ایک بینچ پر جاکے بیٹھ گیا تھا اور ہماری جانب ہی متوجہ تھا۔اور منہ میں اس نے پان بھر رکھا تھا۔ہمارے قریب آنے پر اس نے اٹھ کر پان کی پیک کچرے کے ڈبے میں تھوکی السلام علیکم مجھے مہوش کہتے ہیں۔اس سے پہلے کے میں ان کا تعارف کراتا مہوش نے خود ہی کرادیا۔وعلیکم السلام جی میرا نام عرفان ہے اور ان سے تو آپ مل ہی چکی ہیں جناب ٹائیگر ! ٹائیگر مہوش نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ارے ایسےہی مزاق کررہا ہے ۔ کیا پاگل واگل ہوا ہے یا پان دماغ پر چڑھ گیا ہے میں نے عرفان کو گھورتے ہوئے کہا۔ جی جناب فہیم اب ٹھیک ہے۔ وہاں سے ہم دوبارہ ساحل والے حصے میں آگئے۔کیا کرتے ہیں آپ فہیم صاحب اس نے پوچھا۔میں گرافکس ڈیزائنگ کا کام کرتا ہوں۔اور عرفان صاحب آپ یہ کچھ بھی نہیں کرتے میں نے ہی کہہ دیا یعنی کیا سٹوڈنٹ ہیں۔جی یہی سمجھ لیں۔اس نے پھر مزید کچھ نہیں پوچھا۔اچھا کچھ لیں گے آپ مہوش نے کہا۔ارے یہ بات تو ہمارے کو آپ سےپوچھنا عرفان میرے بولنے سے پہلے ہی بول پڑا۔کیا آپ نے کھانا کھایا ہوا ہے۔عرفان نے مہوش سے پوچھا۔جی! اچھی بات ہے ہمارے پیٹ بھی بھرے ہوئے ہیں ہم لوگ بھی کھانا کھاکر ہی نکلے تھے۔کیوں نہ کولڈرنک پی جائے۔مہوش کولڈرنک پر راضی ہوگئی۔میں ابھی لے کر آیا کون سی لیں گی آپ پیپسی یا پھر وائٹ یا کوئی اور سی عرفان نے پوچھا۔ پیپسی صحیح رہے گی اس نے کہا۔فہیم صاحب آپ کون سی لیں گے۔مہوش نے میرے سے کہا۔میرے لیے بھی پیپسی ہی لے لینا۔لاتا ہوں عرفان وہاں سے کولڈرنک لینے کے لیے ہٹ گیا۔اس دوران مہوش مجھ سے باتیں کرتی رہی اور میں اسے جوابات دیتا رہا۔کچھ دیر میں عرفان پیپسی کے تین کین لے آیا۔ارے ڈسپوزیبل لاتے میں نے کہا۔چلو یار اب تو لے ہی آیا ہوں۔اس نے ایک ایک کین ہم دونوں کو تھمادیا اور تیسرا کھول کر اپنے منہ سے لگالیا۔
 

فہیم

لائبریرین
ہم نے کولڈرنک پینے کے ساتھ ساتھ ریت پر ٹہلتے رہے اور ہلکی پھلکی گفتگو کرتے رہے۔عرفان تو پورا کھلا پڑا تھا۔اور مہوش بھی اس کی باتوں پر کسی بچے کی طرح قہقے لگا رہی تھی۔میں بھی گفتگو میں حصہ تو لے رہا تھا لیکن میرے دماغ میں کچھ اور چل رہا تھا۔آپ لوگ باتیں کریں میں ذرا واش روم سے ہوکر آتا ہوں۔میں یہ کہہ کر ان کے پاس سے ہٹ گیا۔چونکہ وہ دونوں باتوں میں کچھ زیادہ ہی مگن ہوچکے تھے۔اس لیے انھوں نے میری بات پر صرف سر ہلادیے۔میں ان لوگوں سے ذرا ہٹ کر الگ ہوگیا۔جب وہ کچھ اور دور نکل گئے تو میں اس جانب چل پڑا جہاں مہوش کی آلٹو کار کھڑی تھی۔اس جگہ سے ہم لوگ تھوڑا دور میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا کار کے پاس پہنچا۔کار کے قریب کوئی بھی نہیں تھا۔لیکن جب میں گھوم کر دوسری جانب گیا تو وہاں کار کے دروازے سے ٹیک لگائے دو لڑکے بیٹھے تھے۔ان کے ہاتھوں میں سگریٹ تھے۔جن کے دھوئیں میں چرس کی مہک بھی شامل تھی۔میرے اس طرح اچانک سامنے آنے پر وہ چونک پڑے۔کیا یہ گاڑی آپ لوگوں کی ہے اس سے پہلے وہ کچھ بولتے میں نے سوال کرلیا۔کون ہو تم اور کیا مسئلہ ہے ان میں سے ایک نے کہا۔وہ دونوں کھڑے ہوچکے تھے۔کچھ نہیں میں نے صرف یہ پوچھنا ہے کے یہ گاڑی آپ لوگوں کی ہے۔ ہاں اسی لڑکے نے کہا۔اب انھوں نے بری طرح مجھے گھورنا شروع کردیا تھا۔کیا آپ کے ساتھ کوئی محترمہ بھی ہیں۔مسئلہ کیا ہے اور کون ہو تم اس بار دوسرے لڑکے نے خاصے اکڑے ہوئے لہجے میں کہا۔دل میں تو آیا کہ سارے مسئلے ابھی ہی ان کو بتادوں۔لیکن میں نے دماغ کو ٹھنڈا رکھا اور بڑے نرم لہجے میں کہا۔دراصل میری ملاقات ابھی یہاں ایک خاتون سے ہوئی تھی۔ انھوں نے اس کار کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا کہ وہ اس میں آئی ہوئی ہیں۔اتفاق سے ان کی ایک چیز میرے پاس رہ گئی ہے۔ تو میں نے سوچا کہ یہاں ان کی گاڑی کے پاس دیکھوں شاید وہ یہاں موجود ہوں۔ نہیں ہمارے ساتھ کوئی لڑکی نہیں ہے۔اس نے کسی اور گاڑی کا کہا ہوگا۔پہلے والے لڑکے نے کہا انداز ایسا تھا جیسا کہہ رہا ہو کے جاؤ بھائی معاف کرو۔
میں وہاں سے ہٹ گیا اور آندھی طوفان کی طرح اس جگہ پہنچا جہاں عرفان اور مہوش کو چھوڑا تھا۔لیکن وہ وہاں نہیں تھے۔
میں نے موبائل نکال کر عرفان کو کال کی لیکن دوسری طرف پتہ چلا کہ عرفان کا موبائل بند ہے۔میں نے تین چار بار ٹرائی کیا لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات میرے دماغ میں ہلچل سی شروع ہوگئی۔میں نے آنکھیں بند کرکے ایک گہری سانس لے کر اپنے منتشر دماغ کو کنٹرول کیا۔اور اِدھر اُدھر گھوم کر ان دونوں کو ڈھونڈنا شروع کردیا۔میرے کو کچھ ہی دیر گزری ہوگی کے میرے موبائل پر کال آنا شروع ہوگئی۔کوئی نیا نمبر تھا۔ہیلو کون ! میں نے کال رسیو کرکے موبائل کو کان سے لگاتے ہوئے کہا۔ ہاں فہیم میں عرفان دوسری طرف سے عرفان کی آواز سنائی دی کہاں ہے عرفان میں نے تیز لہجے میں پوچھا۔ویسے عرفان کی آواز سن کر میں پوری طرح سکون میں آگیا تھا۔
فہیم فوراً یہاں پہنچ جہاں واش روم بنے ہوئے ہیں میں وہیں موجود ہوں عرفان نے کہا ! اوکے میں آرہا ہوں میں نے کہا اور موبائل کو جیب میں ڈال کر میں وہاں چل پڑا جہاں واش روم بنے ہوئے تھے۔وہاں سے کچھ ہی دور ہوں گا جب عرفان سامنے سے میری طرف آتا دکھائی دیا۔شاید اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا۔ قریب پہنچنے پر میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر بارہ بجے ہوئے ہیں۔کیا ہوا میں نے نرم لہجے میں کہا۔کچھ نہیں یار بس چوٹ ہوگئی۔عرفان نے مرجھائے ہوئے لہجے میں کہا۔لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو ابھی تھوڑی دیر پہلے کتنا زندہ دل نظر آرہا تھا۔اور اب کسی ہارے ہوئے جواری کی سی حالت میں کھڑا ہے۔
آخر ہوا کیا میں نے کہا۔ یار وہ مہوش تو بہت تیز نکلی مجھے تو اندازہ بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔جب تم وہاں سے واش روم کا کہہ کر ہٹ گئے۔تو میں اس کے ساتھ باتیں کرتا ہوا یونہی ٹہلتے ٹہلتے بینچ پر جا بیٹھا۔ وہاں بیٹھنے کے بعد اس نے کہا کہ عرفان صاحب آپ تھوڑی دیر بیٹھ کر ٹھنڈی ہوا کا لطف لیں۔میں بھی واش روم سے ہوکر کر آرہی ہوں۔میں ٹھنڈی ہوا میں کچھ ایسا مگن ہوگیا تھا کہ میں نے صرف سر ہلادیا۔اور خود بنچ پر بیٹھ کر ٹھنڈی ہوا کا مزہ لینے لگا۔کچھ دیر بعد مجھے خیال آیا کے تجھے فون کروں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہاں تم دونوں مل گئے ہو اور مجھے بھول ہی گئے ہو۔یہ سوچ کر میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو موبائل نہیں تھا۔میں نے دوسری جیب میں چیک کیا تو وہاں بھی نہیں تھا۔میں نے بوکھلا کر کھڑا ہوگیا اور تمام جیبیں ٹٹول ڈالیں۔تو پتہ چلا کہ موبائل تو غائب ہے ہی ساتھ میں وہ پرس بھی غائب ہے۔پتہ نہیں میری جیب میں سے یہ چیزیں اس نے کب نکال لیں۔میں فورا واش رومز کے پاس پہنچا تو وہاں نہ تم ملے نہ وہ تو میں نے ایک لڑکے کو ساری بات بتاکر اس کے موبائل سے ایک کال کرنے کی اجازی مانگی اور اس کے موبائل سے تمہیں فون کیا۔عرفان نے بڑے مرے مرے انداز میں یہ بات سنائی۔
اچھا موبائل تو تم نے سائیڈ جیب میں ہی رکھا ہوگا میں نے کہا۔ ہاں اس نے کہا۔ ڈریس پینٹ کی جیب سے کوئی چیز نکالنا کوئی بڑی فنکاری نہیں لیکن مجھے حیرت ہے کے اس نے تیری پچھلی جیب سے پرس نکال لیا اور تو بے ہوش رہا اس بار میں نے کافی سخت لہجے میں کہا۔یار عرفان تو انتا بدھو کیوں ہے اور جب تو بینچ پر بیٹھا تو بھی تجھے احساس نہیں ہوا کے تیری جیب خالی ہوچکی ہے۔میرا لہجے کی سختی کچھ مزید بڑھ گئی۔جواب میں عرفان نے کچھ نہیں کہا۔ مجھے معلوم تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے عرفان لڑکی کو دیکھ کر کچھ زیادہ ہی اوور ہوجاتا ہے یہ بات میں جانتا تھا۔تھوڑی دیر خاموشی رہی۔کتنے پیسے تھے پرس میں ! میں نے نرم لہجے پوچھا۔ یہی کوئی دو ہزار سے تھوڑے اوپر تھے۔ ہوں اور موبائل وہ تو ابھی ہی لیا تھا کتنے کا لیا تھا۔ پتا نہیں ذیشان بھائی لائے تھے۔ ان سے میں نے لے لیا۔
چل خیر ہوتا ہے کوئی بات نہیں بس اس سے یہ نصیحت ضرور لینا کہ آئندہ کسی لڑکی کو دیکھ کر بدھو نہیں ہوجانا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔جواب میں عرفان بھی مسکرادیا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے ان سے الگ ہوکر کیا کاروائی کی تھی۔
اوہ کیا تجھے پہلے سے معلوم تھا کہ کچھ ایسا ہے۔عرفان نے میری بات سنے کے بعد چونک کر کہا۔ تیرا کیا خیال ہے کے مجھے الہام ہوا تھا۔ ابے اوہ سن دماغ اور سوچ بھی کوئی چیز ہوتی ہے سمجھا۔ بس ان کو استعمال کرنے والا چاہیے۔ میں نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔ارے تو ایسے ہی تو اور لوگ تجھے ٹائیگر نہیں کہتے۔عرفان نے ہنستے ہوئے کہا۔ اچھا اور لوگ یعنی تو نہیں۔ اور تو کیا کہتا ہے میں نے اس کی گدی پکڑ کر دباتے ہوئے پوچھا۔ارے میری کیا مجال جو آپ کو کچھ کہہ سکوں عرفان نے بھینچے ہوئے لہجے میں کہا۔میں نے ہنستےہوئے اس کی گدی چھوڑ دی۔
چل اب میں تجھے کچھ پلاتا ہوں تو تو ابھی گنگلوں کا سردار بنا ہوا ہے۔ ہم نے وہاں سے ایک ایک کولڈرنک پی اور واپسی کا سفر شروع کردیا۔
ہم نے وہاں کچھ لوگوں سے معلومات بھی کیں تو پتا چلا کہ اس حلیے کی لڑکی کو ایک لڑکے ساتھ بائیک پر جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ خیر مجھے معلوم تھا کہ اب اس کا ملنا مشکل ہی ہے۔ تب ہی میں نے زیادہ محنت نہیں کی۔
میں بائیک چلاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یہ رات بھی میرے لیے یادگار رہی گی۔
 
Top