وہ ہفتے کی رات تھی۔جب میرے دماغ میں کیڑے کلبلائے کے کہیں جانا چاہیے۔
میں نے اپنے دوست عرفان کو موبائل پر فون کیا کہ کہاں ہو۔
عرفان اس وقت اپنے گھر پر تھا۔میں نے اسے وہیں رکنے اور میرا انتظار کرنےکو کہا۔اور باتھ روم میں گھس گیاجلدی جلدی نہاکر اور تیار ہوکر میں نے بائیک نکالی اور عرفان کے گھر کی طرف چل پڑا۔عرفان کے گھر کا فاصلہ میرے گھر سے بمشکل پندرہ منٹ کا تھا۔جب میں اس کے گھر پہنچا تو ساڑھے نو کا وقت ہورہا تھا۔ہاں عرفان کیا موڈ ہے۔میں نے اس سے پوچھا۔جواب میں اس نے مجھے ایسے گھورا جیسے میرے سر پر اچانک سینگ نکل آئےہوں۔موڈ میرا موڈ تو آرام کرنے کا ہے اس نے کہا۔ارے تم نے مجھے فون کیا ہے کے میں آرہا ہوں میرا انتظار کرو۔اور آکر میرے سے ہی موڈ پوچھ رہے ہو۔اچھا میرا موڈ ہے کہیں گھومنے پھرنے کا میں نےکہا۔تو بس جلدی سے تیار ہوجا۔پہلے تو میری اس بات پر اس نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔لیکن جب میں نے اس کی ران پر ایک کرارا ہاتھ رسید کرکے یہ بات کی تھی۔وہ جھلا کر اٹھ گیا۔اس کے تیار ہونے تک میرے پاس کوئی کام نہیں تھا۔اس لیے میں نے صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کرلیں۔اور جب تک ایسے ہی رہا جب عرفان نے آکر میرا شانہ پکڑ کر ہلایا اور کہا کہ کیا سوگیا ہے۔جواب میں میں نے آنکھیں کھول دیں۔گھڑی پر نظر گئی تو دس بجے سے بھی تھوڑا اوپر ٹائم ہوگیا تھا۔ اتنی دیر لگائی تیار ہونے میں، میں نے اسے گھور کر کہا۔چل بھئی ہوتو گیا۔اب تو کیوں خوامخواہ ٹائم ضائع کررہا ہے۔چلو میں نے کہا۔ میں نے ایک گلاس ٹھنڈا پانی پیا اور ہم نکل آئے۔چونکہ میرے پاس بائیک تھی۔اس لیے عرفان نے اپنی بائیک نہیں نکالی۔اس کے گھر سے نکل کر میں نے اس سے کہا کہ کہاں چلا جائے میرے دماغ میں تو کوئی خاص جگہ نہیں بس کہیں جانے کو دل کررہا تھا۔چلو سی ویو چلتے ہیں تھوڑی ٹھنڈی ہوا کا ہی لطف لے لیں گے(یہ بتاتا چلوں کے میں صرف چند بار ہی سی ویو گیا ہوں)عرفان کے کہنے پر میں نے سی ویو جانے کا ہی فیصلہ کرلیا۔ اور بائیک کو روڈ پر نکال کر ڈاکخانے سے سیدھا تین ہٹی کی طرف لے لیا۔ساڑھے دس کا ٹائم ہورہا تھا۔لیکن ٹریفک پورے زور و شور پر تھا۔میں درمیانی سپیڈ پر بائیک چلاتا رہا۔
اور ساتھ ساتھ عرفان سے گپے ہانکتا رہا۔عرفان کو پان کی عادت ہے۔اور ہر وقت اس کی جیب میں پڑیا موجود رہتی ہے۔لیکن اس کو معلوم ہے کے مجھے پان سے چڑ ہے۔چڑ صرف اس حد تک کے میں کسی ایسے بندے سے بات کروں جس کے منہ میں پان بھرا ہو۔اور وہ ہر بات کا جواب اوں آں کرکے دے رہا ہو۔اس لیے اس بیچارے کا منہ ابھی خالی تھا۔مجھے معلوم تھا کے اسے پان کی طلب ہورہی ہوگی۔کیوں کے وہ میرے آنے سے تھوڑا پہلے ہی کھانا کھاکر فارغ ہوا تھا۔میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے پاس ببل ہوگی۔جواب میں اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں نہیں ہے اس نے کہا میں نے بائیک کو ایک پان کے کیبن کے سامنے روک دیا۔اور عرفان سے کہا کہ وہ جاکر ایک سادہ خوشبو کا پان بنواکر لائے۔چونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ میں پان کس لیے منگوارہا ہوں۔اس لیے وہ بغیر کوئی بات کیے فوراً بائیک سے اترا اور جھٹ سے پان لاکر میرے ہاتھ میں تھمادیا۔میں نے پان کھول کر منہ میں رکھا۔پتہ نہیں کتنے عرصے بعد پان منہ میں گیا تھا۔پان کے ساتھ وہ کچھ ببل بھی لے آیا تھا وہ بھی اس نے میرے ہاتھ میں تھمادیں۔جب تک میں ببل کو جیب میں ڈالتا وہ اپنی جیب سے پان کی پڑیا نکال چکا تھا۔اس نے ایک پان نکال کر اپنے کلے میں دبایا اور بائیک پر بیٹھ گیا۔اب مجھے پتہ تھا کہ سارا سفر خاموشی یا پھر اوں آں والی گفتگو میں گزرنا ہے۔میں نے بائیک اسٹارٹ کی اور آگے بڑھا دی۔جب تک ہم سی ویو پہنچے تقریباً سوا گیارہ سے ساڑھے گیارہ کا وقت تھا۔میں نے بائیک کو ایک اچھی سی جگہ پر لگایا۔اور عرفان کے ساتھ ساحل والے حصے میں آگیا۔سی ویو پر ہر ہفتے کی طرح کافی رش تھا۔جن میں لڑکے بھی تھے اور لڑکیاں بھی۔یار یہ چچھورا پائی کی جگہ لگتی ہے میرے کو پتہ نہیں کیوں۔میں نے عرفان سے کہا۔جس کا پان اب ختم ہوچکا تھا۔کیا چچھورا پائی۔بس تفریح ہے تم بھی تفریح کرو۔ہوں عرفان نے کہا۔ہم نے ریت پر ٹہلنا شروع کردیااور ایسے ہی اِدھر اُدھر کی گفتگو شروع کردی جس کا نہ سر تھا نہ پیر یار فہیم وہ دیکھ وہ لڑکی تجھے دیکھ رہی ہے۔میں کافی دیر سے نوٹ کررہا ہوں۔وہ صرف تیری طرف ہی متوجہ ہے۔عرفان کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میں نے اس طرف دیکھا جہاں کا عرفان نے اشارہ کیا تھا۔وہاں واقعی ایک لڑکی کھڑی تھی۔اور اس کی نگاؤں کا مرکز میں ہی تھا۔ میرے اس طرح اچانک دیکھنے پر وہ تھوڑا جھینپ گئی اور اس نے نگائیں میرے پر سے ہٹھا لیں۔میں نے اس کا سرسری نظروں سے جائزہ لیا۔اس کا قد میرے سے کوئی تھوڑا ہی چھوٹا ہوگا(میرا قد تقریباً پانچ فٹ نو انچ ہے)رنگت اس کی صاف تھی بلکہ اگر اسے گورا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔اس نے ہلکے جامنی کلر کا شلوار قمیض سوٹ پہنا ہوا تھااور کاندھے سے ایک کالے کلر کا پرس لٹکا ہوا تھا۔بالوں کی اس نے پیچھے کی طرف پونی باندھ رکھی تھی۔بلاشبہ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔
میں نے عرفان کو وہاں سے چلنے کا اشارہ کیا اور وہاں سے ہٹ گیا۔عجیب گھامڑ ہو تم عرفان نے چلتےہوئے مجھ سے کہا۔وہ خود تم میں دلچسپی لے رہی تھی۔اور حضرت ہیں کے بس۔دیکھ عرفان تو جانتا ہے کے مجھے ان لغویات میں دلچسپی نہیں میں نے ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔ارے تو میں کون سا کہہ رہا ہوں کے اس لڑکی کو ڈیٹ پر لے کر چلےجاتے کم از کم اس سے بات تو کرتا اچھا ہے تھوڑا ٹائم ہی گزرتا۔رہنے دے مجھے کوئی ضرورت نہیں۔میں نے بدستور ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔
ہونہہ ٹائیگر اچھا ہے میں تجھے اس نام سے نہیں پکارتا۔بچارے ٹائیگر بھی سوچتے ہونگے کے ان کا نام کیسے گھامڑ شخص کو دیا ہوا ہے۔عرفان نے یہ بات کچھ ایسے انداز میں کی کے میرے منہ سے بے ساختہ قہقہ نکل گیا۔میں نے عرفان کے ساتھ دوبارہ اسی جگہ پر آگیا جہاں لڑکی کو دیکھا تھا۔ وہاں وہ لڑکی اب موجود نہیں تھی۔میں نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو وہ لڑکی مجھے کچھ دور نظر آگئی۔ اس وقت بھی وہ اکیلی ہی تھی۔مجھے حیرت ہوئی کے وہ اکیلی کیوں ہے۔کیوں کے میرا نہیں خیال کے کوئی لڑکی تو دور کی بات لڑکا بھی اکیلا سی ویو آتا ہو۔ میں نے اس کی جانب قدم بڑھائے۔عرفان وہیں رک گیا تھا۔ایسکیوز می میم میں نے اس کے پیچھے جاکر کہا۔وہ چونک پڑی اور جب اس کی نگائیں مجھ پر پڑیں تو وہ اور زیادہ چونک پڑی۔ جی فرمائیں اس نے کہا۔ میرے دوست کا کہنا ہے کے آپ کافی دیر سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ کہیں ایسا تو نہیں آپ میرے چہرے میں اپنے کسی قرض خواہ کا چہرہ تلاش کررہی ہوں۔ اس بات پر اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں کیا پورا گھنٹہ بج اٹھا۔
نہیں جی ایسا نہیں ہے۔دراصل میں یہاں اکیلی ہوں۔اور سوچ رہی تھی کے کوئی تو ہونا چاہیے جس کے ساتھ وقت گزر سکے۔ تو آپ کو دیکھا آپ مجھے یہاں موجود لوگوں سے کافی مختلف نظر آرہے تھے۔اللہ خیر کرے کہیں میرے سر پر سینگ تو نہیں نکل آئے میں نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔اس حرکت پر وہ کھلا کھلا کر ہنس پڑی۔لیکن آپ یہاں اکیلی یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی اور کیوں میں آپ کو دوسرے لوگوں سے مختلف نظر آیا میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ آپ مجھے دوسروں سے اس لحاظ سے مختلف نظر آئے کے آپ اپنے آپ میں مگن تھے آپ کی نظریں اِدھر اُدھر نہیں گھوم رہیں تھیں۔ ورنہ آپ ابھی بھی دیکھ سکتے ہیں کے کافی لوگوں کی نظریں تو ہمارے پر بھی جمی ہوئیں ہیں۔میں نے سرسری طور پر نظریں گھمائیں تو واقعی کافی لوگ کن انکھیوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔اور آپ کے اکیلے ہونے کی وجہ میں نے کہا۔اس میں کیا بات ہے۔میں تو اکثر اکیلی ہی آتی رہتی ہوں۔اس نے کہا۔کیسے ! میرے اس سوال پر اس نے روڈ کی جانب اشارہ کیا وہ جو سلور کلر کی آلٹو کھڑی ہے وہ میری ہے اس پر۔ میں نے وہاں دیکھا تو وہاں ایک پر سلور کلر کی آلٹو کار موجود تھی۔اچھا تو یہ بات ہے لیکن آپ کے پاس کار کی موجودگی بتارہی ہے کے آپ کسی اچھی فیملی سے ہیں۔پھر آپ یہاں کیسے آپ تو اپنے گھر میں ہر قسم کی انجوائمنٹ کرسکتی ہیں۔دراصل مجھے یہ ماحول پسند ہے۔سمندر کا جھاگ بناتا پانی اور ٹھنڈی ہوا اس نے کہا۔ لیکن اسطرح اکیلے کسی کو تو ساتھ لے آتیں۔کس کو لاتی آپ بتائیں ! کسی بہن بھائی کو ! میں اپنے والدین کی اکلوتی ہوں ! کوئی فرینڈ ! ہاں فرینڈ ہیں اور کبھی کبھی ان کے ساتھ بھی آتی ہوں۔ ارے اتنی دیر سے ہم گفتگو کررہے ہیں اور ابھی تک ہم ایک دو۔۔سرےکے نام بھی نہیں جان پائے۔ویل میرا نام مہوش ہے اور میں یہیں کلفٹن کے فلیٹ میں رہتی ہوں۔اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا۔پلازہ کا نام نہ اس نے بتایا اور نہ ہی مجھے پوچھنے کی ضرورت پڑی۔ہوں میرا نام فہیم ہے اور میں یہاں صرف چند ہی بار آیا ہوں۔آج دوست کے کہنے پر اس کے ساتھ آگیا۔ہم گفتگو کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ریت پر چلتے جارہے تھے۔ارے ہاں آپ کے ساتھ وہ آپ کے دوست بھی تو تھے۔اور برا نہیں مانیے گا۔وہ بھی بات تو آپ سےکررہےتھے لیکن ان کی نگائیں بھی چاروں اطراف میں گھوم رہیں تھیں۔میں ہنس پڑا ارے نہیں وہ بہت اچھا انسان ہے بس تھوڑا بیوقوف ہے میری بات پر مہوش بھی ہنس پڑی۔ہم عرفان کی طرف چل پڑے مہوش سے باتوں کے دوران میں نے دیکھ لیا تھا کہ وہ ایک بینچ پر جاکے بیٹھ گیا تھا اور ہماری جانب ہی متوجہ تھا۔اور منہ میں اس نے پان بھر رکھا تھا۔ہمارے قریب آنے پر اس نے اٹھ کر پان کی پیک کچرے کے ڈبے میں تھوکی السلام علیکم مجھے مہوش کہتے ہیں۔اس سے پہلے کے میں ان کا تعارف کراتا مہوش نے خود ہی کرادیا۔وعلیکم السلام جی میرا نام عرفان ہے اور ان سے تو آپ مل ہی چکی ہیں جناب ٹائیگر ! ٹائیگر مہوش نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ارے ایسےہی مزاق کررہا ہے ۔ کیا پاگل واگل ہوا ہے یا پان دماغ پر چڑھ گیا ہے میں نے عرفان کو گھورتے ہوئے کہا۔ جی جناب فہیم اب ٹھیک ہے۔ وہاں سے ہم دوبارہ ساحل والے حصے میں آگئے۔کیا کرتے ہیں آپ فہیم صاحب اس نے پوچھا۔میں گرافکس ڈیزائنگ کا کام کرتا ہوں۔اور عرفان صاحب آپ یہ کچھ بھی نہیں کرتے میں نے ہی کہہ دیا یعنی کیا سٹوڈنٹ ہیں۔جی یہی سمجھ لیں۔اس نے پھر مزید کچھ نہیں پوچھا۔اچھا کچھ لیں گے آپ مہوش نے کہا۔ارے یہ بات تو ہمارے کو آپ سےپوچھنا عرفان میرے بولنے سے پہلے ہی بول پڑا۔کیا آپ نے کھانا کھایا ہوا ہے۔عرفان نے مہوش سے پوچھا۔جی! اچھی بات ہے ہمارے پیٹ بھی بھرے ہوئے ہیں ہم لوگ بھی کھانا کھاکر ہی نکلے تھے۔کیوں نہ کولڈرنک پی جائے۔مہوش کولڈرنک پر راضی ہوگئی۔میں ابھی لے کر آیا کون سی لیں گی آپ پیپسی یا پھر وائٹ یا کوئی اور سی عرفان نے پوچھا۔ پیپسی صحیح رہے گی اس نے کہا۔فہیم صاحب آپ کون سی لیں گے۔مہوش نے میرے سے کہا۔میرے لیے بھی پیپسی ہی لے لینا۔لاتا ہوں عرفان وہاں سے کولڈرنک لینے کے لیے ہٹ گیا۔اس دوران مہوش مجھ سے باتیں کرتی رہی اور میں اسے جوابات دیتا رہا۔کچھ دیر میں عرفان پیپسی کے تین کین لے آیا۔ارے ڈسپوزیبل لاتے میں نے کہا۔چلو یار اب تو لے ہی آیا ہوں۔اس نے ایک ایک کین ہم دونوں کو تھمادیا اور تیسرا کھول کر اپنے منہ سے لگالیا۔