کاشفی
محفلین
غزل
(مراتب علی تائب)
وہ رنگ دے تابِ عاشقی میں جو حُسن کو لاجواب کردے
مری نظر میں وہ برق بھر دے جو تجھ کو بھی بے حجاب کر دے
کہاں ہے وہ لطفِ ناز تیرا وہ عشوہء جاں طراز تیرا
نگاہ تیری، جو میرے ہر لفظِ آرزو کو کتاب کردے
مری نظرکو تلاش تیری ، مری نظر تجھ کو ڈھونڈتی ہے
مری حقیقت کے خواب رنگیں مجھے بھی نیرنگِ خواب کر دے
کہاں ہے اے مست ہوش ساقی سرورِ لرزاں خمار رقصاں
مجھے بھی سر جوشِ بے خودی دے مجھے بھی موجِ شراب کر دے
غمِ جدائی سے خاک ہوں میں، وہ نالہء زار، اے محبت
وہ کاسہء چشم تر، جو گردوں کو بھی طلسمِ حباب کردے
خرد کی دنیا عتاب میں ہے جنوں مرا پیچ و تاب میں ہے
سکوں بھی اب اضطراب میں ہے سکوں کو بھی اضطراب کردے
غمِ محبت بلائے جاں ہے ، ستم ہے یارب! ستم ہے یارب!
مجھے جنوں کا شباب کردے مری وفا کو خراب کردے
کہاں کا ذکرِ بقائے ہستی؟ ہے کس کو فکرِ دوامِ مستی؟
جہان بھر کی ہوس پرستی مرے لئے انتخاب کردے
کہاں کا جبر ، اختیار کیسا، نہ عقل میری، نہ عشق میرا،
مرے گناہوں پہ عفو ہی کر، مری خطا کو ثواب کردے
محال ہے ضبطِ شوق تائب میں مضطرب اس نگاہ کا ہوں
جو میرے آئینہء محبت کے حسن کو آب آب کردے
(مراتب علی تائب)
وہ رنگ دے تابِ عاشقی میں جو حُسن کو لاجواب کردے
مری نظر میں وہ برق بھر دے جو تجھ کو بھی بے حجاب کر دے
کہاں ہے وہ لطفِ ناز تیرا وہ عشوہء جاں طراز تیرا
نگاہ تیری، جو میرے ہر لفظِ آرزو کو کتاب کردے
مری نظرکو تلاش تیری ، مری نظر تجھ کو ڈھونڈتی ہے
مری حقیقت کے خواب رنگیں مجھے بھی نیرنگِ خواب کر دے
کہاں ہے اے مست ہوش ساقی سرورِ لرزاں خمار رقصاں
مجھے بھی سر جوشِ بے خودی دے مجھے بھی موجِ شراب کر دے
غمِ جدائی سے خاک ہوں میں، وہ نالہء زار، اے محبت
وہ کاسہء چشم تر، جو گردوں کو بھی طلسمِ حباب کردے
خرد کی دنیا عتاب میں ہے جنوں مرا پیچ و تاب میں ہے
سکوں بھی اب اضطراب میں ہے سکوں کو بھی اضطراب کردے
غمِ محبت بلائے جاں ہے ، ستم ہے یارب! ستم ہے یارب!
مجھے جنوں کا شباب کردے مری وفا کو خراب کردے
کہاں کا ذکرِ بقائے ہستی؟ ہے کس کو فکرِ دوامِ مستی؟
جہان بھر کی ہوس پرستی مرے لئے انتخاب کردے
کہاں کا جبر ، اختیار کیسا، نہ عقل میری، نہ عشق میرا،
مرے گناہوں پہ عفو ہی کر، مری خطا کو ثواب کردے
محال ہے ضبطِ شوق تائب میں مضطرب اس نگاہ کا ہوں
جو میرے آئینہء محبت کے حسن کو آب آب کردے