کاشفی
محفلین
غزل
(نواز دیوبندی)
وہ رُلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
(نواز دیوبندی)
وہ رُلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کر مُسکرایا دیر تک
بھولنا چاہا کبھی اُس کو اگر
اور بھی وہ یاد آیا دیر تک
خودبخود بےساختہ میں ہنس پڑا
اُس نے اِس درجہ رُلایا دیر تک
بھوکے بچوں کی تسلّی کے لیئے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
گُنگُناتا جا رہا تھا ایک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک
کل اندھیری رات میں میری طرح
ایک جگنو جگمگایا دیر تک
اور بھی وہ یاد آیا دیر تک
خودبخود بےساختہ میں ہنس پڑا
اُس نے اِس درجہ رُلایا دیر تک
بھوکے بچوں کی تسلّی کے لیئے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
گُنگُناتا جا رہا تھا ایک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ سایہ دیر تک
کل اندھیری رات میں میری طرح
ایک جگنو جگمگایا دیر تک