ایک مزید غزل پیش خدمت ہے، ملاحظہ فرمائیں!
وہ سب جانتا ہے کہ کیا مانگتا ہے
کوئی جس طرح بھی دعا مانگتا ہے
یہ بچہ نہ جانے ہے کس آسماں کا
ذرا ضد تو دیکھو خدا مانگتا ہے
نہیں اور کچھ چاہیے یہ مسافر
کسی دوست کا بس پتا مانگتا ہے
یہ پلکوں کا نم ہونا کافی نہ ہو گا
کہ آنکھوں کا دشت اب گھٹا مانگتا ہے
یہ دیوانہ دیکھو کہ پتھر بھی کھا کر
ہر اک شخص کا بس بھلا مانگتا ہے
کہاں لطف آتا ہے جینے میں اس کو
جو دنیا میں اس کے سوا مانگتا ہے
عظیم اور کچھ بھی نہیں چاہتا عشق
مگر عاشقوں سے وفا مانگتا ہے
*****
وہ سب جانتا ہے کہ کیا مانگتا ہے
کوئی جس طرح بھی دعا مانگتا ہے
یہ بچہ نہ جانے ہے کس آسماں کا
ذرا ضد تو دیکھو خدا مانگتا ہے
نہیں اور کچھ چاہیے یہ مسافر
کسی دوست کا بس پتا مانگتا ہے
یہ پلکوں کا نم ہونا کافی نہ ہو گا
کہ آنکھوں کا دشت اب گھٹا مانگتا ہے
یہ دیوانہ دیکھو کہ پتھر بھی کھا کر
ہر اک شخص کا بس بھلا مانگتا ہے
کہاں لطف آتا ہے جینے میں اس کو
جو دنیا میں اس کے سوا مانگتا ہے
عظیم اور کچھ بھی نہیں چاہتا عشق
مگر عاشقوں سے وفا مانگتا ہے
*****