وہ سب جانتا ہے کہ کیا مانگتا ہے

عظیم

محفلین
ایک مزید غزل پیش خدمت ہے، ملاحظہ فرمائیں!




وہ سب جانتا ہے کہ کیا مانگتا ہے
کوئی جس طرح بھی دعا مانگتا ہے

یہ بچہ نہ جانے ہے کس آسماں کا
ذرا ضد تو دیکھو خدا مانگتا ہے

نہیں اور کچھ چاہیے یہ مسافر
کسی دوست کا بس پتا مانگتا ہے

یہ پلکوں کا نم ہونا کافی نہ ہو گا
کہ آنکھوں کا دشت اب گھٹا مانگتا ہے

یہ دیوانہ دیکھو کہ پتھر بھی کھا کر
ہر اک شخص کا بس بھلا مانگتا ہے

کہاں لطف آتا ہے جینے میں اس کو
جو دنیا میں اس کے سوا مانگتا ہے

عظیم اور کچھ بھی نہیں چاہتا عشق
مگر عاشقوں سے وفا مانگتا ہے


*****

 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ عظیم تمہاری شاعری واقعی آج کل بڑی پختہ ہوتی جا رہی ہے روز بروز۔ اب ذرا وہ قدیم زمانے کی چار پانچ سو غزلوں کی بھی خود ہی اصلاح کر لو
 

عظیم

محفلین
ماشاء اللہ عظیم تمہاری شاعری واقعی آج کل بڑی پختہ ہوتی جا رہی ہے روز بروز۔ اب ذرا وہ قدیم زمانے کی چار پانچ سو غزلوں کی بھی خود ہی اصلاح کر لو
جزاک اللہ خیر بابا، بہت شکریہ آپ کا شفقت فرمانے کے لیے۔ بابا ان غزلوں کو میں سمجھتا ہوں کہ لاعلمی میں کہا گیا ہے، ہاں کچھ اشعار ضرور ہیں کہ جن میں کچھ بات بھی ہو اور جو سچے بھی کہہ سکوں، مگر میں نہیں سمجھتا کہ مجھے ان پر کسی طرح کی محنت دوبارہ کرنا چاہیے، مگر جو آپ حکم فرمائیں، اگر آپ چاہتے ہیں تو میں ان شاء اللہ وقت ملتے ہی ان سب کو بھی دیکھنے کی کوشش کروں گا
 
Top