عمر سیف
محفلین
وہ شخص مجھے جیت کے ہارا ہے اور بس
وہ شخص مجھے جیت کے ہارا ہے اور بس
اتنا ہی زندگی کا خسارہ ہے اور بس
دُنیا کو اس میں درد کی شدّت کہاں ملے
آنکھوں سے ٹوٹا ہوا تارا ہے اور بس
لفظوں میں دردِ ہجر کو محسوس کرکے دیکھ
کہنے کو میں نے وقت گزارا ہے اور بس
اب اُن میں کوئی خواب سجانے نہیں مجھے
آنکھوں کو انتظار تمھارا ہے اور بس
کیسے کہوں کے اُس کا ارادہ بدل گیا
سچ تو یہی ہے اُس نے پکارا ہے اور بس
میں نے کہا کہ خواب میں دیکھی ہیں بارشیں
اُس نے کہا کے ایک اشارہ ہے اور بس
عاطف سعید