سیما علی
لائبریرین
وہ عکس بن کے مری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
پیام بر ہے وہی تو مری شبِ غم کا
وہ اک ستارہ جو چشمِ سحر میں رہتا ہے
کھلی فضا کا پیامی، ہوا کا باسی ہے
کہاں وہ حلقۂِ دیوار و دَر میں رہتا ہے
جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگنائوں اسے
وہ شعر بن کے بیاضِ نظر میں رہتا ہے
گزرتا وقت مرا غمگُسار کیا ہو گا
یہ خود تعاقبِ شام و سحر میں رہتا ہے
مرا ہی روپ ہے تو غور سے اگر دیکھے
بگُولہ سا جو تری راہگذر میں رہتا ہے
نہ جانے کون ہے جس کی تلاش میں بسمل
ہر ایک سانس مرا اب سفر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
پیام بر ہے وہی تو مری شبِ غم کا
وہ اک ستارہ جو چشمِ سحر میں رہتا ہے
کھلی فضا کا پیامی، ہوا کا باسی ہے
کہاں وہ حلقۂِ دیوار و دَر میں رہتا ہے
جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگنائوں اسے
وہ شعر بن کے بیاضِ نظر میں رہتا ہے
گزرتا وقت مرا غمگُسار کیا ہو گا
یہ خود تعاقبِ شام و سحر میں رہتا ہے
مرا ہی روپ ہے تو غور سے اگر دیکھے
بگُولہ سا جو تری راہگذر میں رہتا ہے
نہ جانے کون ہے جس کی تلاش میں بسمل
ہر ایک سانس مرا اب سفر میں رہتا ہے