طارق شاہ
محفلین
غزلِ
مرزا اسد الله خاں غالب
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کاروبارِ شوق کِسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
تھی وہ اِک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت، جگر میں حال کہاں
دل میں طاقت، جگر میں حال کہاں
ہم سے چُھوٹا قمار خانۂ عشق
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں
فکرِ دُنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
اسد الله خاں غالب