طارق شاہ

محفلین
غزلِ
مرزا اسد الله خاں غالب
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کاروبارِ شوق کِسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
تھی وہ اِک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں‌ طاقت، جگر میں حال کہاں
ہم سے چُھوٹا قمار خانۂ عشق
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں
فکرِ دُنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
اسد الله خاں غالب
 
تھی وہ اِک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
واہ ۔۔!
شکریہ ارسال فرمانے کا ۔۔خوبصورت انتخاب ہے بلاشبہ!​
 

طارق شاہ

محفلین
غالب کے کیا کہنے۔ ایسا عمدہ کلام شریکِ محفل کرنے پر داد قبول کریں
"رعنائیِ خیال" کیا زبردست اصطلاح ہے
احمد بلال صاحب
پذیرائیِ انتخاب کے لئے تشکّر
خوشی ہوئی کہ پیش کردہ غزل پسند آئی

بہت خوش رہیے
 
Top