زینب
محفلین
جو خیال تھے نا قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے،وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل،وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے،وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستایئں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے، وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
یہ خیال سارے ہیں عارضی،یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گل ارزو کی جو باس تھے ،وہی لوگ مجھ سے بچھڑگئے
جنہیں کر سکا نا قبول میں وہی شریک راہ سفر ہوئے
جو میری طلب میری آس تھے ،وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
میری دھڑکنوں کے قریب تھے میری چاہ تھے میرا خواب تھے
وہ جو روز و شب میرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے،وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل،وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے،وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستایئں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے، وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
یہ خیال سارے ہیں عارضی،یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گل ارزو کی جو باس تھے ،وہی لوگ مجھ سے بچھڑگئے
جنہیں کر سکا نا قبول میں وہی شریک راہ سفر ہوئے
جو میری طلب میری آس تھے ،وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
میری دھڑکنوں کے قریب تھے میری چاہ تھے میرا خواب تھے
وہ جو روز و شب میرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے