وہ مجھ سے پوچھنے آئے تھے مجھ کو ۔۔۔

غزل


انہیں پانے کی خواہش بے سبب تھی
تعلق کی کوئی صورت ہی کب تھی

ہمارے ساتھ یہ ہوتا ہے اکثر
خوشی جو بھی ملی وہ جاں بلب تھی

ادھر وہ سامنے بیٹھے ہوئے تھے
ادھر دل کی مرے حالت عجب تھی

انا کی قید میں ہم بھی تھے وہ بھی
وگرنہ بیچ میں دیوار کب تھی

وہ مجھ سے پوچھنے آئے تھے مجھ کو
میں کیا کہتا کہ بس تیری طلب تھی

وہ اک دن کیلئے آئے تھے لیکن
جدائی کی خلش تو روز و شب تھی

اکیلا کل بھی تھا میں، آج بھی ہوں
کمی مجھ میں نہ کوئی اب ، نہ تب تھی

عجب اظہار کا عالم تھا وہ بھی
ہماری گفتگو سب زیر لب تھی

با الآخر پا لیا ہے میں نے تجھ کو
یہ دنیا بن تیرے دنیا ہی کب تھی

حسیب احمد حسیب

 
آخری تدوین:
Top