وہ مسیحا مر گیا کیونکر

فیصل کمال

محفلین
نظروں سے گِر گیا کیونکر
وہ دل سے اُتر گیا کیونکر

موت سے جو ڈرتا نہیں تھا
وہ زندگی سے ڈر گیا کیونکر

سمیٹتا تھا جو ہر کسی کو
وہ شخص بکھر گیا کیونکر

بانٹتا رہا زندگی سب میں
وہ مسیحا مر گیا کیونکر

ڈَبو دیا تھا زمانے نے جسے
پاتال سے اُبھر گیا کیونکر

پھر اسی وحشت نے آلیا
کمال اپنے گھر گیا کیونکر
 

فیصل کمال

محفلین
نظروں سے گِر گیا کیونکر
وہ دل سے اُتر گیا کیونکر

موت سے جو ڈرتا نہیں تھا
وہ زندگی سے ڈر گیا کیونکر

سمیٹتا تھا جو ہر کسی کو
وہ شخص بکھر گیا کیونکر

بانٹتا رہا زندگی سب میں
وہ مسیحا مر گیا کیونکر

ڈَبو دیا تھا زمانے نے جسے
پاتال سے اُبھر گیا کیونکر

پھر اسی وحشت نے آلیا
کمال اپنے گھر گیا کیونکر
 

الف عین

لائبریرین
اس وقت تو کچھ مصروفیت ہے، خلیل کچھ مدد کر سکیں تو اچھا ہے۔ ویسے اس درمیان میں کچھ عروض وغیرہ کی شد بد حاصل کر لیں تو اچھا ہے۔ شاعری اور مستند شعراء کا کلام پڑھیں خوب۔
الف عین صاحب۔ میں نے یہ غزل اصلاحِ سخن میں پوسٹ کر دی ہے۔ اصلاح فرما دیجئے۔ بہت شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کی ایک با وزن صورت یوں ممکن ہے
میری÷اپنی نظروں سے گِر گیا کیونکر
میرے÷اپنے دل سے اُتر گیا کیونکر

فاعلاتن مفاعلن فعلن
 
کچھ کوشش کی ہے
اپنی نظروں سے گرگیا کیونکر​
وہی دِل سے اُتر گیا کیونکر​
موت سے جو کبھی نہیں تھا ڈرا​
زندگی سے وہ ڈر گیا کیونکر​
ہر کسی کو سمیٹتا جو رہا​
آج خود ہی بکھر گیا کیونکر​
زندگی بانٹتا تھا جو اب تک​
وہ مسیحا ہی مرگیا کیونکر​
دوستوں نے ڈبو دیا تھا جسے​
پستیوں سے اُبھر گیا کیونکر
کیسی وحشت نے آلیا ہے مجھے​
فیصل اپنے ہی گھر گیا کیونکر​
 
کچھ اپنی غلطیوں کی ہی اصلاح۔ اب ملاحظہ کیجیے۔

اپنی نظروں سے گرگیا کیونکر​
وہی دِل سے اُتر گیا کیونکر​
موت سے جو کبھی نہیں ہارا​
زندگی سے وہ ڈر گیا کیونکر​
ہر کسی کو سمیٹتا جو رہا​
آج خود ہی بکھر گیا کیونکر​
زندگی بانٹتا رہا اب تک​
وہ مسیحا ہی مرگیا کیونکر​
دوستوں نے ڈبو دیا تھا جسے​
پستیوں سے اُبھر گیا کیونکر
کیسی وحشت نے آلیا ہے اُسے​
فیصل اپنے ہی گھر گیا کیونکر​
 

الف عین

لائبریرین
اب خلیل کی اصلاح کی ہوئی غزل کی دوبارہ اصلاح کر دیتا ہوں۔ شکریہ خلیل کہ میرا نصف کام بچا دیا۔
اپنی نظروں سے گرگیا کیونکر​
وہی دِل سے اُتر گیا کیونکر​
÷÷درست​
موت سے جو کبھی نہیں ہارا​
زندگی سے وہ ڈر گیا کیونکر​
مجھے پہلا مصرع یوں بہتر لگ رہا ہے:​
موت سے جو کبھی نہ ڈرتا تھا​
ہر کسی کو سمیٹتا جو رہا​
آج خود ہی بکھر گیا کیونکر​
÷÷ درست​
زندگی بانٹتا رہا اب تک​
وہ مسیحا ہی مرگیا کیونکر​
÷÷ یہاں ’مسیحا ہی‘ کی وجہ سے پہلے مصرع میں ’جو‘ ضروری ہے۔ لیکن ‘رہا جو‘ پچھلے ہی شعر میں آ چکا ہے۔ اس لئے اس کو یوں کیا جا سکتا ہے۔​
زندگی جو سبھی کو دیتا تھا​
دوستوں نے ڈبو دیا تھا جسے​
پستیوں سے اُبھر گیا کیونکر
÷÷ دوستوں نے جسے ڈبویا تھا‘ آسان سا رواں مصرع نہیں بنتا یہاں؟
کیسی وحشت نے آلیا ہے اُسے​
فیصل اپنے ہی گھر گیا کیونکر​
÷÷ درست، پسند آیا۔​
 
Top