کاشفی

محفلین
غزل
(محمد خاں عالم حیدر آبادی)

وہ منہ کے سامنے چلمن گرائے بیٹھے ہیں
ہم اشتیاق کی صورت بنائے بیٹھے ہیں

نظر جمال پہ اُنکے جمائے بیٹھے ہیں
کہ پردہء در دل ہم اُٹھائے بیٹھے ہیں

ہمارے دل کا کریں گے وہ خون آج ضرور
سنا ہے ہاتھوں میں مہندی لگائے بیٹھے ہیں

خدا کے واسطے ہم سے نہ پوچھو حالت دل
ہزاروں داغ کلیجے پہ کھائے بیٹھے ہیں

فلک پہ شر م سے نکلے کہاں ستارے آج
وہ اپنے ماتھے پہ افشاں جمائے بیٹھے ہیں

خدا کے واسطے اپنی گلی میں رہنے دو
یہاں فقیروں کی صورت بنائے بیٹھے ہیں

نہ کس طرح دل ِعشاق خوں کے بہیں
وہ آج ہونٹوں پہ لاکھا جما ئے بیٹھے ہیں

وہ رشک مہر نہ آیا قریب آگئی شام
سحر سے راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں

چھپا کے خاک میں چمکا ستارہ قسمت کا
وہ میری قبر پہ بستر لگائے بیٹھے ہیں

نہ اُٹھ کے جان سے کیوں خاک میں ملاؤں اُنہیں
رقیب یار سے پہلو ملائے بیٹھے ہیں

وہ کس پہ بگڑے ہیں تحقیق کر کے آ قاصد
سنا ہے غصہ کی صورت بنائے بیٹھے ہیں

اگر یہ سچ ہے تو جان دے کے سرخرو ہوں گا
وہ قتل پر مرے بیڑا اُٹھائے بیٹھے ہیں

سبب ہے کیا کوئی پوچھے تو جاکے عالم سے
کہ ہاتھ جینے سے اپنے اُٹھائے بیٹھے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے خیال میں منہ کے سامنے چلمن گرانا درست محاورہ نہیں ہے۔ درست محاورہ، چہرے کے سامنے چلمن گرانا ہے۔
 
Top