فرحان محمد خان
محفلین
وہ میرا یار دیوانہ بہت تھا رنگ و نکہت کا
سو اس کی قبر پر کچھ پھول رکھے اور لوٹ آیا
میں اس کی رنگ موجوں میں کبھی ڈوبا کبھی ابھرا
بدن تھا یا شبِ مہتاب میں بہتا ہوا دریا
ترے بارے میں ، میں اس کے سوا کچھ اور کیا کہتا
نظر کچھ بھی نہ آیا اس قدر نزدیک سے دیکھا
مجھے اک مصرعِ موزوں بنایا حُسنِ فن بخشا
وہ میرا سوچنے والا کوئی شاعر رہا ہو گا
وہ ہر چہرے کے خد وخال کو ہیچان لیتا ہے
مگر دیکھو تو آئینے کا خود کوئی نہیں چہرا
وہ شامِ بے بسی کیسی اداسی لے کے آئی تھی
اندھیرا بڑھ رہا تھا اور دیا میں نے جلایا تھا
سو اس کی قبر پر کچھ پھول رکھے اور لوٹ آیا
میں اس کی رنگ موجوں میں کبھی ڈوبا کبھی ابھرا
بدن تھا یا شبِ مہتاب میں بہتا ہوا دریا
ترے بارے میں ، میں اس کے سوا کچھ اور کیا کہتا
نظر کچھ بھی نہ آیا اس قدر نزدیک سے دیکھا
مجھے اک مصرعِ موزوں بنایا حُسنِ فن بخشا
وہ میرا سوچنے والا کوئی شاعر رہا ہو گا
وہ ہر چہرے کے خد وخال کو ہیچان لیتا ہے
مگر دیکھو تو آئینے کا خود کوئی نہیں چہرا
وہ شامِ بے بسی کیسی اداسی لے کے آئی تھی
اندھیرا بڑھ رہا تھا اور دیا میں نے جلایا تھا
سلیم احمد