وہ پاک ہے کہ ہمیشہ قصور وار ہیں ہم

عظیم

محفلین
السلام علیکم
غزل کی ایک اور کوشش پیش خدمت ہے


وہ پاک ہے کہ ہمیشہ قصور وار ہیں ہم
کریں بھی شکوہ تو کیسے گناہ گار ہیں ہم

کسی کے منہ پہ کسی کو برا کہیں کیسے
کہ اپنے رب کی رضا کے امیدوار ہیں ہم

خدا کا نام تو لیتے ہیں ہم غریب سے لوگ
گو دیکھنے کو تو رسوا ذلیل و خوار ہیں ہم

ذرا سا پڑھنے پڑھانے میں دل لگا لیں اگر
تو دیکھیے گا کہ کس درجہ ہوشیار ہیں ہم
مزید اشعار بابا کے حکم کے بعد

اسے بھی کیوں نہ عبادات میں شمار کریں
یہ رات دن جو کہیں محو کاروبار ہیں ہم

اگر یہ جان بھی جاتی ہے جائے اس کے لیے
نوازشوں کے بہت جس کی قرض دار ہیں ہم

نہ جانے کون سی آفت ہے سر پہ ٹوٹی ہوئی
نہ جانے کون سی باتوں پہ بے قرار ہیں ہم



 
آخری تدوین:
Top