عبد الرحمن
لائبریرین
ادب دوست بھائی سے ملاقات کا پروگرام یوں تو کم و بیش ایک مہینے سے بنتا بگڑتا آرہا تھا۔ لیکن بالآخر حتمی اس وقت ہوا جب یہ خبر ملی کہ راحیل بھائی بھی ان دنوں کراچی تشریف رکھتے ہیں اور ان کی آمد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک گرینڈ ملاقات ترتیب دی جارہی ہے جس میں بیشتر دوست یکجا ہوں گے۔ یہ بلا شبہ بہت خوش کن خبر تھی۔ چناں چہ بروز اتوار شام 6:00 بجے کا وقت طے پایا گیا۔ قبل از اتوار بھی ادب دوست بھائی مختلف معاملات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے فون پر رابطہ کرتے رہے۔ لیکن مجھ سے اکثر و بیشتر ان کی کال مس ہوجایا کرتی تھی۔ تاہم اس "مسنگ" کو میری مصروفیات پر ہرگز ہرگز محمول نہ کیا جائے۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جب یکے بعد دیگرے دو کالیں مجھ سے چھوٹ گئیں تو تیسری کال میں نے جان بوجھ کر ریسیو نہ کی اس خوف سے کہ کہیں بے بھاؤ کی سننے کو نہ ملے۔ پھر پندرہ بیس منٹ بعد خود کو ڈانٹ کھانے کے لیے تیار کرکے جب میں نے کال بیک کی تو وہی اپنائیت و محبت بھرا لہجہ دیکھ کر مجھے اپنے آپ سے بہت شرمندگی ہوئی۔
خیر اتوار کا دن بھی آ ہی پہنچا۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ اس سے بھی پہلے کچھ اچانک کام اس شدت سے سر پر آن پڑے کہ نہاری کی دعوت اڑانے سے پہلے ہی ہمیں ہاتھ دھونے پڑگئے۔ شام تک بندہ کی محفلِ دوستاں میں حاضری 99٪ مشکوک تھی۔ اس بات سے میں نے ادب دوست بھائی کو بے خبر نہیں رکھا۔ آخر کار 6:00 بجے کے قریب میں معذرت کے الفاظ ترتیب دے ہی رہا تھا کہ میسج پر یہ خبر ملی کہ ساڑھے چھ بجے راحیل بھائی الہٰ دین پارک (کراچی کا ایک تفریحی مقام) پر ہمارے منتظر ہوں گے۔ آپ بھی وہاں آجائیں تو سب ایک ساتھ آگے کا سفر طے کریں گے۔
وہ میسج ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ دل نے اچانک یہ کہتے ہوئے پلٹا کھایا کہ چاہے کچھ ہوجائے ایک منٹ کے لیے ہی سہی لیکن یاروں کے دیدار سے کلیۃ خود کو محروم نہیں رکھنا ہے۔ راقم کے پیش نظر اب صرف دو باتیں رہ گئی تھیں۔ ایک تو یہ کہ جیسے تیسے جلد از جلد راحیل بھائی تک پہنچا جائے تاکہ انجان شہر میں نووارد دوست کو تن تنہا انتظار کا ایک ثانیہ بھی برداشت نہ کرنا پڑے۔ گوکہ ہماری رفاقت کو رفاقت کہنا انتہائی حماقت اور دل رکھنے کی بات ہے۔ لیکن ایسے موقع پر گدھے کو باپ بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ سو اس صورت میں راحیل بھائی کے لیے ہم بہترین آپشن ثابت ہوسکتے تھے۔
دوسرا احساس اس بات کا کھائے جارہا تھا کہ جس محبت و الفت اور خلوص و درد دل سے پندرہ دن کی تھکا دینے والی محنت کے بعد احباب کو ایک چھت کے نیچے جمع کرنے کا جو کارنامہ ادب دوست بھائی نے سر انجام دیا تھا اس کی ذرا بھی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہیے۔ پھر کیا تھا؟ ہم جو بھاگے تو بس بھاگتے ہی رہے۔
عام طور پر اندھیرا ہوجانے کے بعد کوئی اتنی رفتار سے بھاگے تو یقینا اس کے پیچھے کتا نہیں کتوں کا ٹولہ پرجاتا ہے لیکن مجھے یقین تھا کہ اگر کتوں کی تنظیم مجھے اس وقت بھاگتا ہوا دیکھ لیتی تو میرے پیچھے بھاگنے کے بجائے میرے آگے آگے دوڑ رہی ہوتی۔
پھر ہوا یہ کہ سرپٹ دوڑتے دوڑتے جب ہم مطلوبہ جگہ پر پہنچے تو ہماری توقعات کے عین مطابق کوئی آشنا چہرہ ہمیں نظر نہ آیا۔ جیب سے فورا ادب دوست بھائی کی تصویر نکالی جو گزشتہ رات ہی شناخت میں آسانی کی غرض سے پرنٹ کروالی تھی۔ لیکن جب تصویر کو مجھ سے کچھ قدم فاصلے پر کھڑے ایک پروقار نوجوان سے میچ کرنے کی کوشش کی تو شدید ناکامی کا سامنا ہوا۔ ابھی دوبارہ اپنے گھوڑے کی لگامیں کھینچنے ہی والا تھا کہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر تشریف فرما مہمان خصوصی پر نظر جم کر رہ گئی۔ اور راحیل بھائی کو دیکھ لینے کے بعد اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہ رہا کہ میں نے صحیح جگہ بریک لگائی ہے۔
اب دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اس نوجوان کے قریب پہنچا جو گاڑی کے باہر میرے طرف پشت کرکے کھڑا تھا۔ قدموں کی چاپ سن کر وہ پلٹا اور بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے مجھے بھینچ کر گلے لگالیا۔ اس دن پتہ چلا کہ ادب دوست بھائی اپنے اوتار سے جس قدر سخت اور کھردرے نظر آتے ہیں اپنی حقییقی تصویر میں اتنے ہی نرم و ملائم اور دوستانہ طبیعت کے مالک ہیں۔ اسی دوران راحیل اور حسیب برادران بھی گاڑی سے باہر تشریف لائے اور بغل گیر ہوئے۔
ان سب باتوں میں ایک اہم بات کا ذکر کرنا بھول گیا کہ بھاگ بھاگ کر ہماری حالت غیر ہوچکی تھی اور منہ سے الفاظ کا نکلنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ دونوں دوستوں نے یہ صورت حال دیکھ کر ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور پانی کی تلاش میں دوڑ لگادی۔ اس مختصر مدت میں حسیب بھائی سے بہت سے معاملات پر خاطر خواہ گپ شپ ہوئی۔ کلف کیا ہوا سفید کرتا شلوار اور اس پر سیاہ یا کوئی بھی خوش رنگ واسکٹ ہمارے پسندیدہ لباس میں سے ایک ہے اس لیے برادر حسیب سے پہلی مرتبہ ملنے کے باوجود ذرا بھی اجنبیت محسوس نہ ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ چند منٹوں میں کئی ایک اہم موضوعات کا احاطہ کرلیا گیا۔
تھوڑی دیر بعد جب دونوں برادران ناکام واپس آئے تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ ان کے لٹکے ہوئے چہروں پر نہیں بلکہ اس بات پر کہ فرقت کا دورانیہ زیادہ طویل نہیں ہوا۔ اب اُدھر کھڑے کھڑے ہی باتیں شروع ہوگئیں، اور چند لمحوں میں ہی محفل کا رنگ جم گیا۔ پھر جب احقر نے ڈرتے ڈرتے یہ بتایا کہ یہاں تک آنے کا مقصد محض آپ بھائیوں کی زیارت تھا۔ آگے کے پروگرام میں شرکت نہیں کرسکوں گا تو اپنائیت بھری برہمی کا سامنا کرنا پڑا۔
بن کہے یہ بات کیسے پتہ چل جاتی ہے اس کا تو مجھے بھی آج تک پتہ نہیں چل سکا۔ لیکن اتنا ضرور پتہ ہے کہ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے۔ احمد بھائی کو متفقہ طور پر ہمارا سرپرست اعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔ سو اگلے ہی لمحے ان کو کال کی گئی اور فون ہمارے ہاتھ میں تھمادیا گیا۔ جتنا مشکل ان صاحب سے بات کرنا ہے اس سے کہیں زیادہ مشکل آپ کو یہ بات سمجھانا ہے۔ موصوفہ۔۔۔۔۔۔۔۔ معاف کیجے گا! موصوف کی مثال اس ظالم محبوبہ کی سی ہے جس کو اگر خون جگر سے بھی خط لکھا جائے تو بے وفائی کا الزام ان الفاظ میں دے کر خط منہ پر دے ماریں گے؎
لیکن دوسری طرف بھائی صاحب بیک وقت ایسے ماں باپ کا بھی کردار ادا کرتے ہیں جن کو اپنے معاملات میں مداخلت کی زحمت دوں نہ دوں ٹانگ ضرور اڑاتے ہیں اور اپنی منوا کر ہی چھوڑتے ہیں۔ لو یو احمد بھائی!
بہرحال انہوں نے ہمارے ساتھ مختصر سی مغز ماری کے بعد انتہائی سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہلوا بھیجا کہ اس سے بحث کرنا بے کار ہے۔ تھوڑی دھنائی کرکے اس کو گاڑی میں ڈال کر یہاں لے آؤ۔ باقی کا بھرکس یہاں نکالتے ہیں۔ لیکن سامنے کھڑے تین مسٹنڈے ہمارے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اس لیے چند کڑی شرائط پر مشتمل ایک کاغذ پر ہمارے دستخط کے بعد جان کی امان مل ہی گئی۔
رخصت ہوتے وقت ایک بار پھر تینوں عزیزوں سے معانقہ ہوا۔ راحیل بھائی نے جس مضبوطی سے اپنے بازوؤں کے حصار میں لیتے ہوئے مجھ پر محبت نچھاور کی اور گراں قدر دعاؤں سے نوازا اس نے میری رہی سہی قوت گویائی کو بھی سلب کردیا۔ بلاشبہ وہ منظر میرے لیے ناقابل فراموش تھا، اور رہے گا۔ اسی پر بس نہیں، راحیل بھائی کا ایک محبت نامہ مجھے موبائل پر واپسی کا سفر طے کرتے ہوئے "گرنے" سے پہلے بھی موصول ہوا جس کو میں نے اپنی ڈائری میں دن، مقام اور وقت کے ساتھ محفوظ کرلیا۔
یوں کراچی کی پرخطر گلیوں میں یہ حسین پندرہ منٹ اپنی تمام تر دلکشی اور رعنائی کے ساتھ اختتام کو پہنچے۔ آخر میں میرؔ کے اس شیدائی کی نذر یہ شعر کرتا ہوں جس نے نہ صرف اس قول کی عملی تشریح پیش کی بلکہ یادوں کا ایک لازوال نذرانہ بھی ہم سب کو عطا کیا۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جب یکے بعد دیگرے دو کالیں مجھ سے چھوٹ گئیں تو تیسری کال میں نے جان بوجھ کر ریسیو نہ کی اس خوف سے کہ کہیں بے بھاؤ کی سننے کو نہ ملے۔ پھر پندرہ بیس منٹ بعد خود کو ڈانٹ کھانے کے لیے تیار کرکے جب میں نے کال بیک کی تو وہی اپنائیت و محبت بھرا لہجہ دیکھ کر مجھے اپنے آپ سے بہت شرمندگی ہوئی۔
خیر اتوار کا دن بھی آ ہی پہنچا۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ اس سے بھی پہلے کچھ اچانک کام اس شدت سے سر پر آن پڑے کہ نہاری کی دعوت اڑانے سے پہلے ہی ہمیں ہاتھ دھونے پڑگئے۔ شام تک بندہ کی محفلِ دوستاں میں حاضری 99٪ مشکوک تھی۔ اس بات سے میں نے ادب دوست بھائی کو بے خبر نہیں رکھا۔ آخر کار 6:00 بجے کے قریب میں معذرت کے الفاظ ترتیب دے ہی رہا تھا کہ میسج پر یہ خبر ملی کہ ساڑھے چھ بجے راحیل بھائی الہٰ دین پارک (کراچی کا ایک تفریحی مقام) پر ہمارے منتظر ہوں گے۔ آپ بھی وہاں آجائیں تو سب ایک ساتھ آگے کا سفر طے کریں گے۔
وہ میسج ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ دل نے اچانک یہ کہتے ہوئے پلٹا کھایا کہ چاہے کچھ ہوجائے ایک منٹ کے لیے ہی سہی لیکن یاروں کے دیدار سے کلیۃ خود کو محروم نہیں رکھنا ہے۔ راقم کے پیش نظر اب صرف دو باتیں رہ گئی تھیں۔ ایک تو یہ کہ جیسے تیسے جلد از جلد راحیل بھائی تک پہنچا جائے تاکہ انجان شہر میں نووارد دوست کو تن تنہا انتظار کا ایک ثانیہ بھی برداشت نہ کرنا پڑے۔ گوکہ ہماری رفاقت کو رفاقت کہنا انتہائی حماقت اور دل رکھنے کی بات ہے۔ لیکن ایسے موقع پر گدھے کو باپ بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ سو اس صورت میں راحیل بھائی کے لیے ہم بہترین آپشن ثابت ہوسکتے تھے۔
دوسرا احساس اس بات کا کھائے جارہا تھا کہ جس محبت و الفت اور خلوص و درد دل سے پندرہ دن کی تھکا دینے والی محنت کے بعد احباب کو ایک چھت کے نیچے جمع کرنے کا جو کارنامہ ادب دوست بھائی نے سر انجام دیا تھا اس کی ذرا بھی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہیے۔ پھر کیا تھا؟ ہم جو بھاگے تو بس بھاگتے ہی رہے۔
عام طور پر اندھیرا ہوجانے کے بعد کوئی اتنی رفتار سے بھاگے تو یقینا اس کے پیچھے کتا نہیں کتوں کا ٹولہ پرجاتا ہے لیکن مجھے یقین تھا کہ اگر کتوں کی تنظیم مجھے اس وقت بھاگتا ہوا دیکھ لیتی تو میرے پیچھے بھاگنے کے بجائے میرے آگے آگے دوڑ رہی ہوتی۔
پھر ہوا یہ کہ سرپٹ دوڑتے دوڑتے جب ہم مطلوبہ جگہ پر پہنچے تو ہماری توقعات کے عین مطابق کوئی آشنا چہرہ ہمیں نظر نہ آیا۔ جیب سے فورا ادب دوست بھائی کی تصویر نکالی جو گزشتہ رات ہی شناخت میں آسانی کی غرض سے پرنٹ کروالی تھی۔ لیکن جب تصویر کو مجھ سے کچھ قدم فاصلے پر کھڑے ایک پروقار نوجوان سے میچ کرنے کی کوشش کی تو شدید ناکامی کا سامنا ہوا۔ ابھی دوبارہ اپنے گھوڑے کی لگامیں کھینچنے ہی والا تھا کہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر تشریف فرما مہمان خصوصی پر نظر جم کر رہ گئی۔ اور راحیل بھائی کو دیکھ لینے کے بعد اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہ رہا کہ میں نے صحیح جگہ بریک لگائی ہے۔
اب دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اس نوجوان کے قریب پہنچا جو گاڑی کے باہر میرے طرف پشت کرکے کھڑا تھا۔ قدموں کی چاپ سن کر وہ پلٹا اور بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے مجھے بھینچ کر گلے لگالیا۔ اس دن پتہ چلا کہ ادب دوست بھائی اپنے اوتار سے جس قدر سخت اور کھردرے نظر آتے ہیں اپنی حقییقی تصویر میں اتنے ہی نرم و ملائم اور دوستانہ طبیعت کے مالک ہیں۔ اسی دوران راحیل اور حسیب برادران بھی گاڑی سے باہر تشریف لائے اور بغل گیر ہوئے۔
ان سب باتوں میں ایک اہم بات کا ذکر کرنا بھول گیا کہ بھاگ بھاگ کر ہماری حالت غیر ہوچکی تھی اور منہ سے الفاظ کا نکلنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ دونوں دوستوں نے یہ صورت حال دیکھ کر ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور پانی کی تلاش میں دوڑ لگادی۔ اس مختصر مدت میں حسیب بھائی سے بہت سے معاملات پر خاطر خواہ گپ شپ ہوئی۔ کلف کیا ہوا سفید کرتا شلوار اور اس پر سیاہ یا کوئی بھی خوش رنگ واسکٹ ہمارے پسندیدہ لباس میں سے ایک ہے اس لیے برادر حسیب سے پہلی مرتبہ ملنے کے باوجود ذرا بھی اجنبیت محسوس نہ ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ چند منٹوں میں کئی ایک اہم موضوعات کا احاطہ کرلیا گیا۔
تھوڑی دیر بعد جب دونوں برادران ناکام واپس آئے تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ ان کے لٹکے ہوئے چہروں پر نہیں بلکہ اس بات پر کہ فرقت کا دورانیہ زیادہ طویل نہیں ہوا۔ اب اُدھر کھڑے کھڑے ہی باتیں شروع ہوگئیں، اور چند لمحوں میں ہی محفل کا رنگ جم گیا۔ پھر جب احقر نے ڈرتے ڈرتے یہ بتایا کہ یہاں تک آنے کا مقصد محض آپ بھائیوں کی زیارت تھا۔ آگے کے پروگرام میں شرکت نہیں کرسکوں گا تو اپنائیت بھری برہمی کا سامنا کرنا پڑا۔
بن کہے یہ بات کیسے پتہ چل جاتی ہے اس کا تو مجھے بھی آج تک پتہ نہیں چل سکا۔ لیکن اتنا ضرور پتہ ہے کہ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے۔ احمد بھائی کو متفقہ طور پر ہمارا سرپرست اعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔ سو اگلے ہی لمحے ان کو کال کی گئی اور فون ہمارے ہاتھ میں تھمادیا گیا۔ جتنا مشکل ان صاحب سے بات کرنا ہے اس سے کہیں زیادہ مشکل آپ کو یہ بات سمجھانا ہے۔ موصوفہ۔۔۔۔۔۔۔۔ معاف کیجے گا! موصوف کی مثال اس ظالم محبوبہ کی سی ہے جس کو اگر خون جگر سے بھی خط لکھا جائے تو بے وفائی کا الزام ان الفاظ میں دے کر خط منہ پر دے ماریں گے؎
کیا کہا اُس نے ۔۔ مُجھے یاد نہیں ہے لیکن
اِتنا معلوم ہے ،خوابوں کا بھرم ٹُوٹ گیا
اِتنا معلوم ہے ،خوابوں کا بھرم ٹُوٹ گیا
لیکن دوسری طرف بھائی صاحب بیک وقت ایسے ماں باپ کا بھی کردار ادا کرتے ہیں جن کو اپنے معاملات میں مداخلت کی زحمت دوں نہ دوں ٹانگ ضرور اڑاتے ہیں اور اپنی منوا کر ہی چھوڑتے ہیں۔ لو یو احمد بھائی!
بہرحال انہوں نے ہمارے ساتھ مختصر سی مغز ماری کے بعد انتہائی سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہلوا بھیجا کہ اس سے بحث کرنا بے کار ہے۔ تھوڑی دھنائی کرکے اس کو گاڑی میں ڈال کر یہاں لے آؤ۔ باقی کا بھرکس یہاں نکالتے ہیں۔ لیکن سامنے کھڑے تین مسٹنڈے ہمارے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اس لیے چند کڑی شرائط پر مشتمل ایک کاغذ پر ہمارے دستخط کے بعد جان کی امان مل ہی گئی۔
رخصت ہوتے وقت ایک بار پھر تینوں عزیزوں سے معانقہ ہوا۔ راحیل بھائی نے جس مضبوطی سے اپنے بازوؤں کے حصار میں لیتے ہوئے مجھ پر محبت نچھاور کی اور گراں قدر دعاؤں سے نوازا اس نے میری رہی سہی قوت گویائی کو بھی سلب کردیا۔ بلاشبہ وہ منظر میرے لیے ناقابل فراموش تھا، اور رہے گا۔ اسی پر بس نہیں، راحیل بھائی کا ایک محبت نامہ مجھے موبائل پر واپسی کا سفر طے کرتے ہوئے "گرنے" سے پہلے بھی موصول ہوا جس کو میں نے اپنی ڈائری میں دن، مقام اور وقت کے ساتھ محفوظ کرلیا۔
یوں کراچی کی پرخطر گلیوں میں یہ حسین پندرہ منٹ اپنی تمام تر دلکشی اور رعنائی کے ساتھ اختتام کو پہنچے۔ آخر میں میرؔ کے اس شیدائی کی نذر یہ شعر کرتا ہوں جس نے نہ صرف اس قول کی عملی تشریح پیش کی بلکہ یادوں کا ایک لازوال نذرانہ بھی ہم سب کو عطا کیا۔
بار دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
آخری تدوین: