وہ پہلے سے سیانے ہو گئے ہیں

وہ پہلے سے سیانے ہو گئے ہیں
یا شاید ہم دیوانے ہو گئے ہیں
جمی ہے گرد چہروں پر غموں کی
سبھی چہرے پرانے ہو گئے ہیں
جسے دیکھیں اسی کو مار ڈالیں
بڑے پکے نشانے ہو گئے ہیں
مری آنکھوں پہ حلقے پڑ گئے ہیں
مجھے سوئے زمانے ہو گئے ہیں
تعارف نظم سے بھی ہو چکا ہے
غزل سے بھی یارانے ہو گئے ہیں
کبھی راحیلؔ ہم بھی داستاں تھے
ہوا عرصہ فسانے ہو گئے ہیں
 
آخری تدوین:
ہماری صلاح ملاحظہ فرمائیے

وہ پہلے سے سیانے ہو گئے ہیں
یا شاید ہم دیوانے ہو گئے ہیں
کیا ’’ پہلے مصرع میں ’’ وہ پہلے سے زیادہ سیانے ہوگئے ہیں’’ کا مطلب سمجھ میں آرہا ہے؟


مری آنکھوں پہ ہلکے پڑ گئے ہیں
مجھے سوئے زمانے ہو گئے ہیں


حلقے؟


تعارف نظم سے بھی ہو چکا ہے
غزل سے بھی یارانے ہو گئے ہیں


یارانے کو آپ نے یرانے باندھاہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
حلقے تو درست کر دیا گیا۔
مطلع می پہلا مصرع قابل غور ہے۔ دوسرا مصرع بھی ’یا‘ میں الف کے اسقاط کی وجہ سے کریہہ لگ رہا ہے۔ دوسرے مصرع میں ’کہ‘ لانے سے بات بن جاتی ہے؟
حلقے والے شعر میں پہلا مصرع بھی ’ہیں‘ پر ختم ہو رہا ہے جو ردیف بھی ہے۔ اس کی نشست بدلی جا سکتی ہے۔
مقطع تو بدل ہی دیں۔ یارانے یہاں نہیں آ سکتا۔
 
Top