وہ چہرہ اب نگاہوں سے ہٹتا نہیں..!

اس ایک شخص میں تھیں دل ربائیاں کیا کیا،
ہزار لوگ ملیں گے مگر کہاں وہ ایک شخص..!

وقت کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے، کہ گزر جاتا ہے۔ کوئی خوشی دائمی نہیں ہوتی اور ناہی کوئی غم ابد تک ساتھ چلتا ہے۔ لیکن سال مہینے، مہینہ ہفتے، ہفتہ دن، دن گھنٹے اور گھنٹہ منٹوں کی مانند کیسے گزر گیا اسکا احساس اُس کے دور جانے سے ہوا۔ مرنے والے کا کوئی رشتہ دار یا دوست احباب اگر مرنے والے کا آخری دیدار کرلے تو کسی حد تک دل مطمئن ہو جاتا ہے لیکن اُس تکلیف سے ملنے والے زخم کبھی نہیں بھرتے جب مرنے والے کا آخری دیدار بھی نصیب نا ہو۔ ہر خوشی اور غم کے موقعے پر چلے جانے والے کی یاد ستاتی ہے اور وہ کسی نا کسی روپ میں سامنے رہتا ہے۔
اور یہ ساری کیفیات اس وقت پیش آئیں جب اس ماہ جبیں سے رابطہ ختم ہوا۔ اپنے واٹس ایپ Contacts کو اسکرول کرتے کرتے جب اس ماہ جبیں کے نام پر رُکا تو پروفائل پر کوئی تصویر موجود نہ تھی۔ مسیج کیا لیکن جواب نہیں آیا اور دھیرے دھیرے یہ احساس ہونے لگا کہ شاید ہمارا تعلق یہی تک تھا۔ صرف ایک ہی بات مجھے ستاتی رہتی ہے کہ تعلق کا اختتام اگر کرنا تھا یا کسی بھی سبب سے تعلق ختم ہونا تھا تو اچھے انداز سے بھی ہوسکتا تھا لیکن شاید قدرت کو یہی منظور تھا۔ مجھے اکثر یہ لگتا تھا کہ شاید مجھے اُس سے محبت ہے اور میں شاید غلط بھی نہیں تھا اُس کی شوخ اور چنچل ادا، دلکش مسکراہٹ اور خوبصورت آواز سے محبت کئے بغیر رہ پانا ممکن ہی نا تھا۔ کبھی اچانک کسی بھی موقع پر جب کبھی اسکی یاد آتی یا اس کا کوئی ہم نام ملتا تو فوراً فارورڈ مسیج کرتا اور وہ ہمیشہ یہی کہتی:
میری یاد آئی اسلئے مسیج کیا نا؟
اور میں چاہتے ہوئے بھی کبھی اثبات میں جواب نہیں دے پاتا اور موضوع تبدیل کرلیا کرتا تھا۔ لیکن!

محبت رہی چار دن زندگی میں
رہا چار دن کا اثر زندگی بھر

پہلے ملاقات سے لیکر آخری بار رابطے تک اس ماہ جبیں میں بے پناہ تبدیلیاں آئیں لیکن اس کا شوخ اور چنچل پن اُسی طرح رہا۔ میری اُس سے کورس کے ختم ہوجانے کے بعد ملاقات نہیں ہوئی تھی البتہ بذریعہ مسیجز یا فون کال رابطہ رہا لیکن ہماری ہم آہنگی اچھی تھی بجز اسکے کہ میں سوات کے برف پوش پہاڑوں کا الھڑ سا لڑکا اور وہ پنجاب کے زرخیز زمین کی نازک سی ڈالی تھی جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی کہ کوئی اسکے قریب بھی آئے یا دل پھینک عاشق کی طرح اسکے گرد منڈلائے۔ وہ مجھ سے اپنی ہر بات کرتی، مشورہ لیتی، میری رائے جاننے کی کوشش کرتی۔ اس سال کے ابتداء میں اسکی شادی طے تھی اور جب میری اس سے آخری بار گفتگو ہوئی تو اُس کا لہجہ انتہائی مایوس کن تھا اگر چہ اِس شادی کیلئے اُسے کئی پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ گھر والوں سے لڑ جھگڑ کر، سب کی مخالفتیں مول لیکر دونوں کی بات طے ہوئی تھی اور شادی کی تاریخ بھی مقرر کرلی گئی تھی۔ بجائے اس کے کہ وہ خوش ہوتی اور اپنی کامیابی پر دیوانہ وار رقص کرتی وہ اندر سے ٹوٹ چکی تھی۔
میرے بارہا اصرار کرنے پر کہ کیا ہوا؟
سب ٹھیک تو ہے؟
اور اس نے مختصر سا جواب دیا:
بتاؤنگی فرصت میں۔

اور اسکے بعد شاید اسے فرصت ہی نہیں ملی بتانے کی۔
وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور یونہی گزرتا چلا جائے گا۔ اور شاید کبھی اس سے دوبارہ بات بھی نا ہو اور میں اس سے یہ پوچھ بھی نا سکوں کہ آخر وہ اتنی اداس اور مایوس کیوں تھی لیکن ان سب کے باوجود ایک بات جو حقیقت ہے وہ یہ کہ:

نظر بھر کہ بھی جسے کبھی دیکھا نہ تھا،
وہ چہرہ اب نگاہوں سے ہٹتا نہیں..!
 
Top