غزل
وہ کبھی اپنے سے جدا نہ کرے
کچھ بھی ہو جائے دل گلہ نہ کرے
پھر سے تاریک راستوں پہ چلوں
ایسا ہرگز مرا خدا نہ کرے
کوئی دن ایسا آج تک نہ گیا
جس میں عاجز کوئی دعا نہ کرے
آدمی کے یہ بس میں ہے تو نہیں
زندگی میں کوئی خطا نہ کرے
وہ ہے جب مہربان سب سے بڑا
صلہ محنت کا کیوں عطا نہ کرے
عشق میں چاہیے یہ عاشق کو
دل کو اپنے کبھی برا نہ کرے
جس کا لگ جائے دل کسی کے ساتھ
کیا کرے پھر وہ شخص کیا نہ کرے
میں ہی وعدوں کا پاس رکھتا نہیں
وہ تو مجھ سے کبھی جفا نہ کرے
جو کوئی ہو غریب مجھ ایسا
اپنی حد سے کبھی بڑھا نہ کرے
میں وہ بیمار ہوں محبت کا
جس کا کوئی کبھی پتا نہ کرے
دل کے ہاتھوں عظیم ہوں مجبور
ورنہ کچھ بھی زباں کہا نہ کرے
*****