کاشفی
محفلین
نظم نما غزل
(جگر)
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی ، نظر میں اب تک سما رہے ہیں
یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں، یہ آرہے ہیں وہ جارہے ہیں
وہی قیامت ہے قد بالا، وہی ہے صورت وہی سراپا
لبوں کو جنبش، نگہ کو لرزش، کھڑے ہیں اور مُسکرارہے ہیں
وہی لطافت، وہی نزاکت، وہی تبسم، وہی ترنم
میں نقش حرماں بنا ہوا ہوں، وہ نقشِ حیرت بنا رہے ہیں
خرامِ رنگیں، نظامِ رنگیں، کلام رنگیں، پیام رنگیں
قدم قدم پر، روش روش پر ، نئے نئے گُل کھلا رہے ہیں
شباب رنگیں، جمال رنگیں، وہ سر سے پا تک تمام رنگیں
تمام رنگیں بنے ہوئے ہیں، تمام رنگیں بنا رہے ہیں
تمام رعنائیوں کے مظہر، تمام رنگینیوں کے منظر
سنبھل سنبھل کر، سمٹ سمٹ کر سب ایک مرکز پر آرہے ہیں
بہار رنگ و شباب ہی کیا، ستارہ و ماہتاب ہی کیا
تمام ہستی جھکی ہوئی ہے، جدھر وہ نظریں جھکا رہے ہیں
شراب آنکھوں سے ڈھل رہی ہے، نظر سے مستی اُبل رہی ہے
چھلک رہی ہے، اچھل رہی ہے، پئے ہوئے ہیں پلا رہے ہیں
خود اپنے نشے میں جھومتے ہیں، وہ اپنا منہ آپ چومتے ہیں
خرام مستی بنے ہوئے ہیں، ہلاکِ مستی بنا رہے ہیں
وہ روئے رنگیں وہ موجہء نسیم کہ جیسے دامانِ گل پہ شبنم
یہ گرمیء حسن کا ہے عالم، عرق عرق میں نہارہے ہیں
یہ مست بلبل بہک رہی ہے، قریبِ عارض چہک رہی ہے
گلوں کی چھاتی دھڑک رہی ہے ، وہ دستِ رنگیں بڑھا رہے ہیں
یہ موجِ دریا، یہ ریگ صحرا، یہ غنچہ و گل یہ ماہ و انجم
ذرا جو وہ مسکرا دیئے ہیں، یہ سب کے سب مسکرا رہے ہیں
فضا یہ نغموں سے بھر گئی ہے کہ موجِ دریا ٹھہر گئی ہے
سکوت نغمہ بنا ہوا ہے، وہ جیسے کچھ گنگنا رہے ہیں
اب آگے جو کچھ بھی ہو مقدر، رہے گا لیکن یہ نقش دل پر
ہم ان کا دامن پکڑ رہے ہیں، وہ اپنا دامن چھڑا رہے ہیں
ذرا جو دم بھر کو آنکھ جھپکی، یہ دیکھتا ہوں نئی تجلی
طلسم صورت مٹا رہے ہیں، جمال معنی بنا رہے ہیں