نوید ناظم
محفلین
بھلا کوئی کرم بھی ہم پہ کیوں یہ روشنی کرے
جو کرنا ہو ہمارے ساتھ کُھل کے تیرگی کرے
کہ یا تو یہ ہے چپ رہے ہمارے سامنے کوئی
اگر ضرور بات کرنی ہو تو پھر تِری کرے
کمی تو دلبروں کی آج بھی نہیں جہان میں
جو لگتا ہو کہیں پہ دل تو کوئی دل لگی کرے
جو تھا مِرا سخن شناس مجھ سے وہ بچھڑ گیا
کرے جو بات مجھ سے اب تو صرف خامشی کرے
تُجھے نکال دوں میں خود سے میرے بس میں یہ نہیں
مجھے قبول کرتا ہے جو، تیرے ساتھ ہی کرے
جو تیری زلف میں ہے قید خوش نصیب ہے وہ دل
وہ کتنا بد نصیب ہے کہ جس کو تُو بری کرے
نوید یوں تو اِس کے پاس ہیں عنایتیں بڑی
بس اک وفا ہے، جو نہ اُس کی طرح زندگی کرے
جو کرنا ہو ہمارے ساتھ کُھل کے تیرگی کرے
کہ یا تو یہ ہے چپ رہے ہمارے سامنے کوئی
اگر ضرور بات کرنی ہو تو پھر تِری کرے
کمی تو دلبروں کی آج بھی نہیں جہان میں
جو لگتا ہو کہیں پہ دل تو کوئی دل لگی کرے
جو تھا مِرا سخن شناس مجھ سے وہ بچھڑ گیا
کرے جو بات مجھ سے اب تو صرف خامشی کرے
تُجھے نکال دوں میں خود سے میرے بس میں یہ نہیں
مجھے قبول کرتا ہے جو، تیرے ساتھ ہی کرے
جو تیری زلف میں ہے قید خوش نصیب ہے وہ دل
وہ کتنا بد نصیب ہے کہ جس کو تُو بری کرے
نوید یوں تو اِس کے پاس ہیں عنایتیں بڑی
بس اک وفا ہے، جو نہ اُس کی طرح زندگی کرے