کاشفی
محفلین
غزل
(شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ)
وہ کون ہے مُجھ پر جو تاسف نہیں کرتا؟
پر میرا جگر دیکھ کہ میں اُف نہیں کرتا
کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے میںاُن کے
اور دم مرا جانے میں توقف نہیں کرتا
دل فقر کی دولت سے مرا اتنا غنی ہے
دنیا کے زرو مال پہ میں تُف نہیں کرتا
پڑھتا نہیں خط غیر مرا واں کسی عنوان
جب تک کہ عبارت میں تصرف نہیں کرتا
اے ذوقؔ تکلّف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے وہ ہے جو تکلّف نہیں کرتا
(شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ)
وہ کون ہے مُجھ پر جو تاسف نہیں کرتا؟
پر میرا جگر دیکھ کہ میں اُف نہیں کرتا
کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے میںاُن کے
اور دم مرا جانے میں توقف نہیں کرتا
دل فقر کی دولت سے مرا اتنا غنی ہے
دنیا کے زرو مال پہ میں تُف نہیں کرتا
پڑھتا نہیں خط غیر مرا واں کسی عنوان
جب تک کہ عبارت میں تصرف نہیں کرتا
اے ذوقؔ تکلّف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے وہ ہے جو تکلّف نہیں کرتا