غزل
وہ کون ہے کہ کبھی سامنے بھی آتا نہیں
مگر جو دیکھو تو آنکھوں سے دور جاتا نہیں
ہزار جگہوں پہ دل کو لگا کے دیکھ لیا
مجھے اب اس کے سوا اور کچھ بھی بھاتا نہیں
بس اک رضا ہے جو اس کی، مجھے وہ ہے مطلوب!
جز اس کے اور تو میرا کچھ اس سے ناتا نہیں
نہ جانے کیا ہے کہ دنیا کے عیب دیکھتا ہوں
کسی بھی شخص پہ انگلی مگر اٹھاتا نہیں
بہت سے دکھ بھی ہیں پنہاں، یہ میرے سینے میں
مری طرح کوئی دنیا میں مسکراتا نہیں
میں خود کو مان کے بیٹھا ہوا ہوں شاعر ایک
مگر جو شعر ہے مجھ سے کہا وہ جاتا نہیں
ہے کچھ ضرور مگر مجھ کو علم کوئی کہاں
نظر تو آتا ہے سب کچھ، سمجھ میں آتا نہیں
نہ جانے کیا ہے یہ بندش کہ غم ہی ہے مقبول
جسے ہو عشق وہ بندہ کیوں گیت گاتا نہیں
مجھے تو خود سے شکایت ہے، اس کا کیا کہنا!
وہ پیار کرتا ہے ایسا کہ کچھ ستاتا نہیں
گزرتی جاتی ہے اچھے سے رسم و رہ اپنی
وہ روٹھتا نہیں مجھ سے تو میں مناتا نہیں