عابی مکھنوی
محفلین
یہ 1981 یا 1982 کی بات ہے۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب پانچ یا چھ سالہ لڑکے کے لیے پورے کپڑے پہننا اور مٹی نہ کھانا تہذیب کی معراج سمجھی جاتی تھی۔ابھی مٹی کا ذائقہ پھیکا بھی نہ پڑا تھا کہ ہمیں ملیشیا یونیفارم میں ڈال کر پڑوسی گاؤں میں واقع پرائمری اسکول کے قصائی صفت اساتذہ کو ہدیہ کر دیا گیا۔ہمیں ملیشیا کے نئے یونیفارم کو پہننے سے زیادہ سونگھنے میں مزہ آ رہا تھا۔اپنے اسکول کے پہلے دن کو یاد رکھنے کا دعویٰ کوئی جھوٹا ہی کر سکتا ہے۔اسی لیے ہم نے آج تک سچا ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا۔
پہلی خوشی ہمیں اس وقت ملی جب ہمارا ناشتے کا نمبر بدلا۔دس بہن بھائیوں میں پہلا نمبر شہر کے اسکولوں میں پڑھنے والوں کا ہوتا تھا۔جن کی حیثیت ہمارے لیے ظالم سماج سے کم نہ تھی ۔وہ توے سے اترنے والے گرما گرم پراٹھے ہوا میں ہی اچک لیتے۔غڑپ غڑپ کی آواز کے ساتھ دیگچی سے چائے کے کپ بھرتے اور حاکمانہ انداز میں ہم پر نظریں جمائے،گردن اکڑائے ناشتہ کرتے جاتے۔دوسرا نمبر گاؤں کے اسکول والوں کا اور تیسرا نمبر مٹی خور ان پڑھ عوام کا۔ہم نے بھی اپنے سینیئرز سے تکبر کا درس لینے میں ذرہ برابر کنجوسی کا مظاہرہ نہ کیا۔بلکہ دو قدم آگے بڑھتے ہوئے ہم نے چولھے کے گرد دائرہ کھینچ دیا کہ جن کا ابھی تعلیم سے رشتہ طے نہیں ہوا ان کو کوئی حق نہیں کہ وہ ہماری موجودگی میں چولھے کے گرد بھی پھٹکیں۔عدلیہ یعنی امی جان کی طرف سے پراٹھوں کی حد دو عدد سے بڑھ کر حسب گنجائش ہو چکی تھی۔البتہ چائے کی مقدار ہنوز دو کپ پر قائم تھی۔ایک اضافی پراٹھہ آلو یا ساگ کے سالن کے ساتھ بغرض تفریح اخبار میں لپیٹ کر ہمارے حوالے کیا گیا۔بستہ امی جان نے خود گھر میں سیا تھا۔جس میں ایک خانہ کتابوں کے لیے اور دوسرا ہماری خوراک سے متعلق تھا۔آنے والے سالوں میں ہم نے اپنی تخریبی کاروائیوں کی بدولت پورا بستہ خوراک کے خانے میں تبدیل کر دیا کتابیں ہم ہاتھ میں تھام لیتے تھے۔
اسکول جانے کے خواب ہم اپنے دور جاہلیت سے ہی دیکھ رہے تھے۔ظالم سماج یعنی بڑے بہن بھائیوں نے ہمیں اسکول کے اندرونی حالات سے ہمیشہ بے خبر رکھا۔ سچ نہ پوچھیں تو وہ ایک خوشگوار صبح تھی۔مکئی کی فصل اپنے جوبن پر تھی۔تا حد نگاہ پھیلے کھیتوں میں ہم سے دگنے قد کی مکئی کے ٹانڈے نشیلی ہوا کے سرور کے زیر اثر جھوم رہے تھے۔اللہ ہی جانتا ہے کہ ان پر ہوا کا نشہ تھا یا وہ ہمارے انجام پر مست ہو رہے تھے۔ہمارے بھائی جان جو اس وقت چوتھے درجے کے قیدی تھے وقفے وقفے سے ہمیں ایسے ہانکا لگا رہے تھے جیسے بیوپاری جمعرات کی منڈی کے لیے بکروں کو لے کر جاتا ہے۔برابری کے احساس نے ہماری چال میں بھی بے پباہ اعتماد بھر دیا تھا۔آخر بیس سے پچیس منٹ پر مشتمل یہ پیدل سفر اپنے انجام کو پہنچا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ملیشیا کے تھیلوں میں ملبوس سینکڑوں بچے اچھل کود کر رہے تھے۔زیادہ افرا تفری ہمارے اپنے سائز کے بچوں میں تھی۔اس سے اوپر کے تمام سائز نسبتاً سنجیدہ نظر آ رہے تھے۔ہمارے معاصرین کے ہاتھوں میں نئی نویلی لکڑی کی تختیاں لہرا رہی تھیں۔پرانے پاپڑ تھوڑے تھوڑے وقفے سے اپنی تختیوں کا جائزہ لے رہے تھے۔کہیں کہیں دو دو کی ٹولیاں نظر آئیں جن میں سے ایک جلدی جلدی دوسرے کی تختی سے دیکھ کر سرکنڈے کے قلم سے کچھ چھاپ رہا تھا۔مربع شکل کے میدان کے دو مخالف کونوں پر دو کھنڈر نما کمرے کھڑے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔گھر سے اسکول تک کی صحت افزا فضا کے قابلے میں اسکول کی فضا گرد و غبار سے اٹی پڑی تھی۔چار چار پانچ پانچ لڑکوں پر مشتمل ٹیمیں مخصوص مقامات پر ٹاٹ کو جھاڑ کر بچھا رہی تھیں۔چند کالے بورڈ جنازے کی صورت میں لائے جا رہے تھے۔کوئی تین ٹانگوں والے اٹکاؤ کو نصب کر رہا تھا۔بھائی جان کے چہرے پر عجیب زہریلی مسکراہٹ پھیلی تھی۔جیسے آج کا دن ہماری طرف سے ان کے خلاف کی جانے والی تمام چغلیوں کے جواب میں انتقام کی تکمیل کا دن ہو۔بظاہر شفقت سے ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھے وہ ہمیں ایک الگ تھلگ کونے میں لے گئے۔ان کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی قصائی کسی صحت مند جانور کو بہلا پھسلا کر کمیلے میں لے کر جاتا ہے۔ ابھی ہم نے سلیقے سے بچھے ٹاٹ پر اپنا بستہ رکھا ہی تھا کہ ٹن ٹن کے شور نے ماحول میں تلاطم بپا کر دیا۔
چند لمحوں میں بکھرا ہوا ہجوم کسی فوجی پلاٹون کا منظر پیش کرنے لگا۔ہمیں اب تک کے تمام مناظر بہت اچھے لگ رہے تھے۔پلاٹون کے تمام فوجی اپنے اپنے درجوں میں ترتیب سے خاموش کھڑے تھے۔ادھر چوتھے درجے کے چار عدد جلاد صفت بدمعاش ہم رنگروٹوں کے سروں پر مسلط تھے۔انہوں نے انتہائی بد تمیزی سے ہمیں پکڑ پکڑ کر ٹاٹ پر بٹھایا کہ ابھی تمھاری یہی جگہ ہے۔ہوشیار اور آسان باش کی کڑکدار صدا پر ہمارے بزرگ اپنے پاؤں سے دھرتی کا سینہ کوٹ رہے تھے۔شلوار قمیص میں ملبوس چند انکل پلاٹون کے سامنے کھڑے یہ سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔ایک اور انکل کو ہم نے دیکھا کہ وہ وقفے وقفے سے کسی نہ کسی بزرگ کی گدی پر ایک تھپڑ رسید کرتے اور وہ بے چارہ لہرا کر دوبارہ اور زور و شور سے گرجتی صدا پر اپنے پاؤں پٹخنے لگتا۔
آنے والے دنوں میں ہم پر انکشاف ہوا کہ اس اجتماعی مظاہرے کو اسمبلی کہا جاتا ہے۔ ادھر چاروں جلاد ہماری چار قطاروں میں پنجوں کے بل بیٹھے ہمارے بستوں کوایسے ٹٹول رہے تھے کہ جیسے ان کو مخبری ہوئی ہو کہ یہ نووارد چوزے چرس کے اسمگلر ہیں۔ہم نے دیکھا کہ ان کی دلچسپی کا مرکز خوراک والا خانہ ہے۔وہ گھی میں لتھڑے اخبار کو کھولنے کی زحمت بھی نہیں کر رہے تھے۔اوپر سے ہی آدھا کرتے آدھا واپس رکھتے اور آدھا اپنی بغلی جیبوں میں ٹھونس دیتے۔ہم اس غنڈہ گردی کو بھی اسمبلی کا حصہ سمجھ کر تماشہ دیکھ رہے تھے۔اسمبلی کے اختتام کے ساتھ ہی ایک ہیرو ٹائپ انکل ماتھے پر پف سجائے ہمارے سامنے کرسی پر براجمان ہو گئے۔وہ باری باری ایک ایک چوزے کا رجسٹر سے نام پکارتے۔اپنے پاس بلاتے،اس کا بستہ منگواتے،کتابوں تختی اور لوہے کی سلیٹ کا جائزہ لیتے اور شفقت سے گال سہلا کر واپس بٹھا دیتے۔پدرانہ شفقت کے اس عظیم الشان مظاہرے کو دیکھ کر تو جیسے ہمیں پر ہی لگ گئے۔تشنج کی کیفیت رفع ہوئی اور ہم نے اپنے بستے کےخوراک والے خانے سے من و سلویٰ نکال کر بستے پر رکھ لیا۔ابھی ہم نے پراٹھے کا لقمہ منہ میں رکھا ہی تھا کہ ہمارا بلاوا آگیا۔ہم پراٹھا چباتے ہوئے ایک ہاتھ میں بستہ اور دوسرے میں من و سلویٰ تھامے ہیرو انکل کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ہمارے حساب سے پہلے ان کو ہماری تختی اور سلیٹ چیک کرنی تھی،پھر کتابیں۔ہم من و سلویٰ بغل میں دبا کر بستہ کھولنے ہی لگے تھے کہ ایک لہراتا ہوا تھپڑ ہمارے بائیں گال پر پڑا۔ہم نے بمشکل منہ میں موجود لقمے کو باہر کی بجائے اندر کی طرف پھینکا۔جھٹکے کی وجہ سے بغل میں دبا چکنائی سے لبریز اخبار کا پیکٹ پھسل کر دور جا گرا۔چونکہ ہم عمر کے اس حصے میں تھے کہ جب خوراک ہی اولین نصب العین ہوتا ہے لہذا ہم نے جھپٹ کر اپنا پیکٹ اٹھا لیا۔لیکن دوسرے ہی لمحے پیکٹ پھر ہمارے ہاتھ سے غائب تھا۔جی ہاں اب پیکٹ ہیرو انکل کے ہاتھ میں تھا۔ہیرو انکل نے پیکٹ دوبارہ خوراک والے خانے میں رکھتے ہوئے ہمیں سمجھایا کہ پیٹ پوجا کی اجازت صرف دوسری ٹن ٹن پہ ہے۔
دوسری ٹن ٹن کے انتظار میں باقی وقت ہم نے ساگ اور پراٹھے کے ذرات زبان کی مدد سے دانتوں سے نکال نکال کر چباتے گزارا۔اس دوران ہم نے اپنے دائیں بائیں ہولناک مناظر کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ دیکھا۔آٹھ آٹھ دس دس کی ٹولیوں میں کہیں ملیشیا میں ملبوس مرغے دائرے میں گھوم رہے تھے اور کہیں قطار میں چل رہے تھے۔کوئی ہاتھ زمین پر اور پاؤں دیوار پہ ٹکائے مراقبے میں مصروف تھا۔سب سے خوفناک منظر جہاز کا تھا۔ہمارے ایک بزرگ کو اس کے چار مطلبی دوستوں نے بازؤں اور پاؤں سے پکڑ کر ہوا میں الٹا معلق کر رکھا تھا اور ایک انکل چھڑی سے اس کی خبر لے رہے تھے۔خوف کی شدت سے ہم بھی ایک لمحے کے لیے اپنے من و سلویٰ کو بھول گئے۔باقی انکل کالے بورڈوں پر سفید رنگ سے کچھ کیڑے مکوڑے بنا رہے تھے۔تختیاں اسکول کے پہلو میں بہنے والی نالی پر دھوئی جا رہی تھیں اور وہیں ایک دوسرے کے کندھے تھامے خشک ہو رہی تھیں۔ہمارے پیٹ کے چوہے سر اٹھا اٹھا کر پوچھ رہے تھے کہ دوسری ٹن ٹن کب ہو گی۔ہم بھی مسلسل خوراک والے خانے کو گھورے جا رہے تھے۔ہمارے سامنے بھی ہیرو انکل کچھ ٹیڑھا میڑھا لکھتے اور پھر اونچی آواز میں ہم سے نعرے لگواتے الف ۔ ۔ ۔ ۔ بے۔ ۔ ۔ پے ۔۔ ۔ ۔ ۔۔الف ۔ ۔ ۔ ۔بے ۔ ۔ ۔ ۔ پے ۔۔۔۔۔۔ چیخ چیخ کر ہمارا حلق سوکھ چکا تھا۔
اللہ بھلا کرے ٹن ٹن کا کہ وہ ہو گئی۔ہم نے اپنا ہاتھ خانے کے قریب ہی بچھا رکھا تھا۔ہمارے بھائی جان جس وقت ہم سے پوچھنے آئے کہ ہم نے کچھ کھایا ہے یا نہیں اس وقت تک ہم اپنے پہلو میں بیٹھے ایک چوزے سے دوستی گانٹھ کر دوستی کے ثبوت کے طور پر اپنے منہ کا ذائقہ بھی بدل چکے تھے۔کچھ چوزے جن کے بڑے بھائی اسکول میں نہیں تھےمنہ بولے بھائیوں کی شفقت کے عوض اپنا من و سلویٰ بانٹ رہے تھے۔ہم نے بھائی جان سے مطالبہ کیا کے گھر چلو۔بھائی جان کی زہریلی مسکراہٹ نے ایک بار پھر ہمارا استقبال کیا۔انہوں نے ہمارا گال سہلاتے ہوئے انکشاف کیا کہ گھر ہم تیسری ٹن ٹن کے بعد ہی جا سکتے ہیں۔یعنی ابھی ہمیں مرغوں کی مزید چہل قدمی اور جہاز کی کچھ اور پروازوں کا مشاہدہ کرنا تھا۔ہمارے معصوم دماغ نے فتویٰ دیا کہ اسکول سے اچھا تو ہمارا باغ ہے۔جہاں ہم اپنی مرضی سے جب چاہیں آلوچے،خوبانیاں اور لوکاٹیں کھا سکتے ہیں۔ہماری یاداشت دوسری اور تیسری ٹن ٹن کے درمیان ہونے والے واقعات کی تفصیلات بتانے سے قاصر ہے۔بس اتنا یاد ہے کہ تیسری ٹن ٹن کے ساتھ ہی بھائی جان اپنی دھلی ہوئی تختی لہراتے ہمارے سر پر آن دھمکے اور ہمارا گھر کی طرف واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ سرسبز کھیوں کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے ہمیں محسوس ہوا کہ مکئی کے ٹانڈے لپک لپک کر ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں۔گھر پہنچتے ہی ہم نے بستہ اور تختی پٹخ کر امی جان سے کھانے کا مطالبہ داغ دیا۔مکئی کی روٹی پر مکھن کا پیڑا جماتے ہوئے امی جان نے ہم سے دریافت کیا کہ آج ہم نے اسکول میں کیا سیکھا۔ہم نے کسی تعلیم یافتہ انسان کی طرح ماتھے پر شکنوں کا جال تانتے ہوئے امی جان کو بتایا کہ آج ہیرو انکل نے ہمیں سکھایا ہے کہ دوسری ٹن ٹن سے پہلے ہم کچھ نہیں کھا سکتے۔امی جان نے ہمارا ماتھا چومتے ہوئے ہمارے علم کی داد دی ۔۔۔۔۔۔اور خلاف معمول مکھن،مکئی کی روٹی کے ساتھ ساتھ دیگر لوازمات ہرے مصالحے کی چٹنی،تازہ ساگ اور لسی کا جگ بھی ہماری طرف سرکا دیا ۔ ۔
از:عابی مکھنوی
پہلی خوشی ہمیں اس وقت ملی جب ہمارا ناشتے کا نمبر بدلا۔دس بہن بھائیوں میں پہلا نمبر شہر کے اسکولوں میں پڑھنے والوں کا ہوتا تھا۔جن کی حیثیت ہمارے لیے ظالم سماج سے کم نہ تھی ۔وہ توے سے اترنے والے گرما گرم پراٹھے ہوا میں ہی اچک لیتے۔غڑپ غڑپ کی آواز کے ساتھ دیگچی سے چائے کے کپ بھرتے اور حاکمانہ انداز میں ہم پر نظریں جمائے،گردن اکڑائے ناشتہ کرتے جاتے۔دوسرا نمبر گاؤں کے اسکول والوں کا اور تیسرا نمبر مٹی خور ان پڑھ عوام کا۔ہم نے بھی اپنے سینیئرز سے تکبر کا درس لینے میں ذرہ برابر کنجوسی کا مظاہرہ نہ کیا۔بلکہ دو قدم آگے بڑھتے ہوئے ہم نے چولھے کے گرد دائرہ کھینچ دیا کہ جن کا ابھی تعلیم سے رشتہ طے نہیں ہوا ان کو کوئی حق نہیں کہ وہ ہماری موجودگی میں چولھے کے گرد بھی پھٹکیں۔عدلیہ یعنی امی جان کی طرف سے پراٹھوں کی حد دو عدد سے بڑھ کر حسب گنجائش ہو چکی تھی۔البتہ چائے کی مقدار ہنوز دو کپ پر قائم تھی۔ایک اضافی پراٹھہ آلو یا ساگ کے سالن کے ساتھ بغرض تفریح اخبار میں لپیٹ کر ہمارے حوالے کیا گیا۔بستہ امی جان نے خود گھر میں سیا تھا۔جس میں ایک خانہ کتابوں کے لیے اور دوسرا ہماری خوراک سے متعلق تھا۔آنے والے سالوں میں ہم نے اپنی تخریبی کاروائیوں کی بدولت پورا بستہ خوراک کے خانے میں تبدیل کر دیا کتابیں ہم ہاتھ میں تھام لیتے تھے۔
اسکول جانے کے خواب ہم اپنے دور جاہلیت سے ہی دیکھ رہے تھے۔ظالم سماج یعنی بڑے بہن بھائیوں نے ہمیں اسکول کے اندرونی حالات سے ہمیشہ بے خبر رکھا۔ سچ نہ پوچھیں تو وہ ایک خوشگوار صبح تھی۔مکئی کی فصل اپنے جوبن پر تھی۔تا حد نگاہ پھیلے کھیتوں میں ہم سے دگنے قد کی مکئی کے ٹانڈے نشیلی ہوا کے سرور کے زیر اثر جھوم رہے تھے۔اللہ ہی جانتا ہے کہ ان پر ہوا کا نشہ تھا یا وہ ہمارے انجام پر مست ہو رہے تھے۔ہمارے بھائی جان جو اس وقت چوتھے درجے کے قیدی تھے وقفے وقفے سے ہمیں ایسے ہانکا لگا رہے تھے جیسے بیوپاری جمعرات کی منڈی کے لیے بکروں کو لے کر جاتا ہے۔برابری کے احساس نے ہماری چال میں بھی بے پباہ اعتماد بھر دیا تھا۔آخر بیس سے پچیس منٹ پر مشتمل یہ پیدل سفر اپنے انجام کو پہنچا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ملیشیا کے تھیلوں میں ملبوس سینکڑوں بچے اچھل کود کر رہے تھے۔زیادہ افرا تفری ہمارے اپنے سائز کے بچوں میں تھی۔اس سے اوپر کے تمام سائز نسبتاً سنجیدہ نظر آ رہے تھے۔ہمارے معاصرین کے ہاتھوں میں نئی نویلی لکڑی کی تختیاں لہرا رہی تھیں۔پرانے پاپڑ تھوڑے تھوڑے وقفے سے اپنی تختیوں کا جائزہ لے رہے تھے۔کہیں کہیں دو دو کی ٹولیاں نظر آئیں جن میں سے ایک جلدی جلدی دوسرے کی تختی سے دیکھ کر سرکنڈے کے قلم سے کچھ چھاپ رہا تھا۔مربع شکل کے میدان کے دو مخالف کونوں پر دو کھنڈر نما کمرے کھڑے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔گھر سے اسکول تک کی صحت افزا فضا کے قابلے میں اسکول کی فضا گرد و غبار سے اٹی پڑی تھی۔چار چار پانچ پانچ لڑکوں پر مشتمل ٹیمیں مخصوص مقامات پر ٹاٹ کو جھاڑ کر بچھا رہی تھیں۔چند کالے بورڈ جنازے کی صورت میں لائے جا رہے تھے۔کوئی تین ٹانگوں والے اٹکاؤ کو نصب کر رہا تھا۔بھائی جان کے چہرے پر عجیب زہریلی مسکراہٹ پھیلی تھی۔جیسے آج کا دن ہماری طرف سے ان کے خلاف کی جانے والی تمام چغلیوں کے جواب میں انتقام کی تکمیل کا دن ہو۔بظاہر شفقت سے ہمارے کندھے پر ہاتھ رکھے وہ ہمیں ایک الگ تھلگ کونے میں لے گئے۔ان کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی قصائی کسی صحت مند جانور کو بہلا پھسلا کر کمیلے میں لے کر جاتا ہے۔ ابھی ہم نے سلیقے سے بچھے ٹاٹ پر اپنا بستہ رکھا ہی تھا کہ ٹن ٹن کے شور نے ماحول میں تلاطم بپا کر دیا۔
چند لمحوں میں بکھرا ہوا ہجوم کسی فوجی پلاٹون کا منظر پیش کرنے لگا۔ہمیں اب تک کے تمام مناظر بہت اچھے لگ رہے تھے۔پلاٹون کے تمام فوجی اپنے اپنے درجوں میں ترتیب سے خاموش کھڑے تھے۔ادھر چوتھے درجے کے چار عدد جلاد صفت بدمعاش ہم رنگروٹوں کے سروں پر مسلط تھے۔انہوں نے انتہائی بد تمیزی سے ہمیں پکڑ پکڑ کر ٹاٹ پر بٹھایا کہ ابھی تمھاری یہی جگہ ہے۔ہوشیار اور آسان باش کی کڑکدار صدا پر ہمارے بزرگ اپنے پاؤں سے دھرتی کا سینہ کوٹ رہے تھے۔شلوار قمیص میں ملبوس چند انکل پلاٹون کے سامنے کھڑے یہ سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔ایک اور انکل کو ہم نے دیکھا کہ وہ وقفے وقفے سے کسی نہ کسی بزرگ کی گدی پر ایک تھپڑ رسید کرتے اور وہ بے چارہ لہرا کر دوبارہ اور زور و شور سے گرجتی صدا پر اپنے پاؤں پٹخنے لگتا۔
آنے والے دنوں میں ہم پر انکشاف ہوا کہ اس اجتماعی مظاہرے کو اسمبلی کہا جاتا ہے۔ ادھر چاروں جلاد ہماری چار قطاروں میں پنجوں کے بل بیٹھے ہمارے بستوں کوایسے ٹٹول رہے تھے کہ جیسے ان کو مخبری ہوئی ہو کہ یہ نووارد چوزے چرس کے اسمگلر ہیں۔ہم نے دیکھا کہ ان کی دلچسپی کا مرکز خوراک والا خانہ ہے۔وہ گھی میں لتھڑے اخبار کو کھولنے کی زحمت بھی نہیں کر رہے تھے۔اوپر سے ہی آدھا کرتے آدھا واپس رکھتے اور آدھا اپنی بغلی جیبوں میں ٹھونس دیتے۔ہم اس غنڈہ گردی کو بھی اسمبلی کا حصہ سمجھ کر تماشہ دیکھ رہے تھے۔اسمبلی کے اختتام کے ساتھ ہی ایک ہیرو ٹائپ انکل ماتھے پر پف سجائے ہمارے سامنے کرسی پر براجمان ہو گئے۔وہ باری باری ایک ایک چوزے کا رجسٹر سے نام پکارتے۔اپنے پاس بلاتے،اس کا بستہ منگواتے،کتابوں تختی اور لوہے کی سلیٹ کا جائزہ لیتے اور شفقت سے گال سہلا کر واپس بٹھا دیتے۔پدرانہ شفقت کے اس عظیم الشان مظاہرے کو دیکھ کر تو جیسے ہمیں پر ہی لگ گئے۔تشنج کی کیفیت رفع ہوئی اور ہم نے اپنے بستے کےخوراک والے خانے سے من و سلویٰ نکال کر بستے پر رکھ لیا۔ابھی ہم نے پراٹھے کا لقمہ منہ میں رکھا ہی تھا کہ ہمارا بلاوا آگیا۔ہم پراٹھا چباتے ہوئے ایک ہاتھ میں بستہ اور دوسرے میں من و سلویٰ تھامے ہیرو انکل کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ہمارے حساب سے پہلے ان کو ہماری تختی اور سلیٹ چیک کرنی تھی،پھر کتابیں۔ہم من و سلویٰ بغل میں دبا کر بستہ کھولنے ہی لگے تھے کہ ایک لہراتا ہوا تھپڑ ہمارے بائیں گال پر پڑا۔ہم نے بمشکل منہ میں موجود لقمے کو باہر کی بجائے اندر کی طرف پھینکا۔جھٹکے کی وجہ سے بغل میں دبا چکنائی سے لبریز اخبار کا پیکٹ پھسل کر دور جا گرا۔چونکہ ہم عمر کے اس حصے میں تھے کہ جب خوراک ہی اولین نصب العین ہوتا ہے لہذا ہم نے جھپٹ کر اپنا پیکٹ اٹھا لیا۔لیکن دوسرے ہی لمحے پیکٹ پھر ہمارے ہاتھ سے غائب تھا۔جی ہاں اب پیکٹ ہیرو انکل کے ہاتھ میں تھا۔ہیرو انکل نے پیکٹ دوبارہ خوراک والے خانے میں رکھتے ہوئے ہمیں سمجھایا کہ پیٹ پوجا کی اجازت صرف دوسری ٹن ٹن پہ ہے۔
دوسری ٹن ٹن کے انتظار میں باقی وقت ہم نے ساگ اور پراٹھے کے ذرات زبان کی مدد سے دانتوں سے نکال نکال کر چباتے گزارا۔اس دوران ہم نے اپنے دائیں بائیں ہولناک مناظر کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ دیکھا۔آٹھ آٹھ دس دس کی ٹولیوں میں کہیں ملیشیا میں ملبوس مرغے دائرے میں گھوم رہے تھے اور کہیں قطار میں چل رہے تھے۔کوئی ہاتھ زمین پر اور پاؤں دیوار پہ ٹکائے مراقبے میں مصروف تھا۔سب سے خوفناک منظر جہاز کا تھا۔ہمارے ایک بزرگ کو اس کے چار مطلبی دوستوں نے بازؤں اور پاؤں سے پکڑ کر ہوا میں الٹا معلق کر رکھا تھا اور ایک انکل چھڑی سے اس کی خبر لے رہے تھے۔خوف کی شدت سے ہم بھی ایک لمحے کے لیے اپنے من و سلویٰ کو بھول گئے۔باقی انکل کالے بورڈوں پر سفید رنگ سے کچھ کیڑے مکوڑے بنا رہے تھے۔تختیاں اسکول کے پہلو میں بہنے والی نالی پر دھوئی جا رہی تھیں اور وہیں ایک دوسرے کے کندھے تھامے خشک ہو رہی تھیں۔ہمارے پیٹ کے چوہے سر اٹھا اٹھا کر پوچھ رہے تھے کہ دوسری ٹن ٹن کب ہو گی۔ہم بھی مسلسل خوراک والے خانے کو گھورے جا رہے تھے۔ہمارے سامنے بھی ہیرو انکل کچھ ٹیڑھا میڑھا لکھتے اور پھر اونچی آواز میں ہم سے نعرے لگواتے الف ۔ ۔ ۔ ۔ بے۔ ۔ ۔ پے ۔۔ ۔ ۔ ۔۔الف ۔ ۔ ۔ ۔بے ۔ ۔ ۔ ۔ پے ۔۔۔۔۔۔ چیخ چیخ کر ہمارا حلق سوکھ چکا تھا۔
اللہ بھلا کرے ٹن ٹن کا کہ وہ ہو گئی۔ہم نے اپنا ہاتھ خانے کے قریب ہی بچھا رکھا تھا۔ہمارے بھائی جان جس وقت ہم سے پوچھنے آئے کہ ہم نے کچھ کھایا ہے یا نہیں اس وقت تک ہم اپنے پہلو میں بیٹھے ایک چوزے سے دوستی گانٹھ کر دوستی کے ثبوت کے طور پر اپنے منہ کا ذائقہ بھی بدل چکے تھے۔کچھ چوزے جن کے بڑے بھائی اسکول میں نہیں تھےمنہ بولے بھائیوں کی شفقت کے عوض اپنا من و سلویٰ بانٹ رہے تھے۔ہم نے بھائی جان سے مطالبہ کیا کے گھر چلو۔بھائی جان کی زہریلی مسکراہٹ نے ایک بار پھر ہمارا استقبال کیا۔انہوں نے ہمارا گال سہلاتے ہوئے انکشاف کیا کہ گھر ہم تیسری ٹن ٹن کے بعد ہی جا سکتے ہیں۔یعنی ابھی ہمیں مرغوں کی مزید چہل قدمی اور جہاز کی کچھ اور پروازوں کا مشاہدہ کرنا تھا۔ہمارے معصوم دماغ نے فتویٰ دیا کہ اسکول سے اچھا تو ہمارا باغ ہے۔جہاں ہم اپنی مرضی سے جب چاہیں آلوچے،خوبانیاں اور لوکاٹیں کھا سکتے ہیں۔ہماری یاداشت دوسری اور تیسری ٹن ٹن کے درمیان ہونے والے واقعات کی تفصیلات بتانے سے قاصر ہے۔بس اتنا یاد ہے کہ تیسری ٹن ٹن کے ساتھ ہی بھائی جان اپنی دھلی ہوئی تختی لہراتے ہمارے سر پر آن دھمکے اور ہمارا گھر کی طرف واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ سرسبز کھیوں کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے ہمیں محسوس ہوا کہ مکئی کے ٹانڈے لپک لپک کر ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں۔گھر پہنچتے ہی ہم نے بستہ اور تختی پٹخ کر امی جان سے کھانے کا مطالبہ داغ دیا۔مکئی کی روٹی پر مکھن کا پیڑا جماتے ہوئے امی جان نے ہم سے دریافت کیا کہ آج ہم نے اسکول میں کیا سیکھا۔ہم نے کسی تعلیم یافتہ انسان کی طرح ماتھے پر شکنوں کا جال تانتے ہوئے امی جان کو بتایا کہ آج ہیرو انکل نے ہمیں سکھایا ہے کہ دوسری ٹن ٹن سے پہلے ہم کچھ نہیں کھا سکتے۔امی جان نے ہمارا ماتھا چومتے ہوئے ہمارے علم کی داد دی ۔۔۔۔۔۔اور خلاف معمول مکھن،مکئی کی روٹی کے ساتھ ساتھ دیگر لوازمات ہرے مصالحے کی چٹنی،تازہ ساگ اور لسی کا جگ بھی ہماری طرف سرکا دیا ۔ ۔
از:عابی مکھنوی