نور وجدان
لائبریرین
بنانا مٹانا مٹا کر بنانا اس کی حکمت کے رخ ہیں ۔ وہ مٹی کے گارے سے انسان کا جسم بناتا ہے اور پھر انسان کے جسم کو مٹی گارا بنا کر فنا کر دیتا ہے ۔ گارے مٹی کایہ کھیل زندگی اور موت کے عمل کو رواں رکھتا ہے ۔ مٹی سے جسموں کا بننا ، ان جسموں میں روح کا سمانا زندگی کو جنم دیتا ہے ، روح نکلنے کے بعد جسموں کا فنا ہونا ، اسی سمانے نکلنے فنا ہونے کے سلسلے میں مالکِ کائنات کی حکمت چھپی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ تعمیرِ حیات کے ابتدا میں گارہ کھنکھناتی مٹی سے لیس دار لج لجا کی صورت بدلا گیا پھر اسمیں جان ڈال دی گئی ۔ کن فیکون میں بدل گیا ۔ روح کو جسم میں دخول کا امر ہوگیا ، گویا لا مکاں کو مکان مل گیا ۔حلقہِ لا مکاں نے جسم خاکی میں قدم رکھا اور نفس سے اس کو قرارکی استقامت ملی ۔
حلقہِ لا مکاں نے مکاں میں داخل ہونے کے بعد بے جان جسم خاک کو بے پناہ قوتیں وسعتیں عطا کردیں ، وہ جو مٹی تعمیر سے پہلے تخریب کی حالت میں گیلی لج لجی تھی ۔ وہ جس کو نظر بھر دیکھنے کے بعد دل برا پڑتا تھا ، حلقہِ لا مکاں کے دخول کے بعد وہی اب بہت اعلی ، جمیل ہے .... بہت خوبصورت ہے بہت پر نور ہے کہ اسکا نور چارسو بکھرتا ہے ،
نور کی جانب ، نور کی سرحدوں میں داخلے
، کیسے داخلے ؟ کیسے رابطے ؟ کیسے ضابطے ؟
مر مٹنے کے ضابطے ؟ کیسے سابقے َ؟
شاید کوئی ماضی میں کھوگیا ہے ،
کوئی تو گمشدہ ہے ؟ کوئی گمشدہ ہے
اور ستم زدہ ہے ..
ابھی سرحدِ نور میں چار سو نور کو دیکھ رہا ہے ، حجاب ازل کی جانب خیال پروازمیں ہے اچانک ، گمان نے راستے روک دیے ؟
مصطفوی ﷺ نور کہاں ہے ؟ ارے ! وہ کہاں نہیں ہے ؟
اندر ہے ! باہر ہے !
اوپر بھی ، زمین میں بھی ،
عیاں بھی ، نہاں بھی ! تو کیا وہ خدا ہے ؟
نہیں ! وہ خدا کے بعد ہے
تو وہ ہر جگہ کیوں ہے ؟
وہ تو ایک کی جگہ ہے !
ایک نے ایک جگہ ، ایک کو دے دی ۔ محبوب نے محبوب کو اپنی محبوبیت کی سند دے دی ، جا ! جس دل میں دیکھ ! مندر میں جا ، مسجد میں بیٹھ ، کسی باغ میں بیٹھ ، گلوں کی خوشبو سے مہک ، جگنو کی روشنی سے نکلتا نور دیکھ .......
''تو وہ جو ہر جگہ ہے ،جس کا جلوہ ہر جگہ دکھ رہا ہے، وہ خدا ہے''
اللہ نور السماوات و الارض ۔۔۔۔۔
''ا جو ہر جگہ ہے ، جو دکھ رہا ہے ، وہ محمد ﷺ ہے''
و ما ارسلنک الا رحمتہ للعالمین
موسیؑ کو جلوہ ِ جاناں نہ دکھا مگر طور جلا دیا گیا ...ؑ محمدﷺ وہ کہ جنہیں خود دیدارکے لیئے خود فلک پر بُلا لیا گیا ، موسی ؑ کو چالیس رات اس تپش میں جلنا پڑا جبکہ محمد ﷺ کو چالیس سال سرور کی منازل میں محو رکھا ......
اللہ الصمد
میں تجھے چاہوں مگر تو کہاں ہے ؟ کس در دکھے گا تیرا جلوہ ۔۔؟ آئی صدا جہاں محمد ﷺ کا ذکر ہے ، وہاں ہی میں رہتا ہوں ۔۔۔۔ ۔۔لامکاں کی بلندیوں پر رفعت محمد ﷺ کے نور کو ملی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین کی حد بندیوں سے اوجِ ثریا کے رفعتوں میں نورِ علیِ نور کے سلاسل میں محمد ، احمد ، طہ ، یسین ، مزمل ، مدثر کے نوری اسما گردش میں ، ۔۔۔۔ افلاک بھی اس گردش کا حصہ ہے ،
حلقہِ لا مکاں نے مکاں میں داخل ہونے کے بعد بے جان جسم خاک کو بے پناہ قوتیں وسعتیں عطا کردیں ، وہ جو مٹی تعمیر سے پہلے تخریب کی حالت میں گیلی لج لجی تھی ۔ وہ جس کو نظر بھر دیکھنے کے بعد دل برا پڑتا تھا ، حلقہِ لا مکاں کے دخول کے بعد وہی اب بہت اعلی ، جمیل ہے .... بہت خوبصورت ہے بہت پر نور ہے کہ اسکا نور چارسو بکھرتا ہے ،
نور کی جانب ، نور کی سرحدوں میں داخلے
، کیسے داخلے ؟ کیسے رابطے ؟ کیسے ضابطے ؟
مر مٹنے کے ضابطے ؟ کیسے سابقے َ؟
شاید کوئی ماضی میں کھوگیا ہے ،
کوئی تو گمشدہ ہے ؟ کوئی گمشدہ ہے
اور ستم زدہ ہے ..
ابھی سرحدِ نور میں چار سو نور کو دیکھ رہا ہے ، حجاب ازل کی جانب خیال پروازمیں ہے اچانک ، گمان نے راستے روک دیے ؟
مصطفوی ﷺ نور کہاں ہے ؟ ارے ! وہ کہاں نہیں ہے ؟
اندر ہے ! باہر ہے !
اوپر بھی ، زمین میں بھی ،
عیاں بھی ، نہاں بھی ! تو کیا وہ خدا ہے ؟
نہیں ! وہ خدا کے بعد ہے
تو وہ ہر جگہ کیوں ہے ؟
وہ تو ایک کی جگہ ہے !
ایک نے ایک جگہ ، ایک کو دے دی ۔ محبوب نے محبوب کو اپنی محبوبیت کی سند دے دی ، جا ! جس دل میں دیکھ ! مندر میں جا ، مسجد میں بیٹھ ، کسی باغ میں بیٹھ ، گلوں کی خوشبو سے مہک ، جگنو کی روشنی سے نکلتا نور دیکھ .......
''تو وہ جو ہر جگہ ہے ،جس کا جلوہ ہر جگہ دکھ رہا ہے، وہ خدا ہے''
اللہ نور السماوات و الارض ۔۔۔۔۔
''ا جو ہر جگہ ہے ، جو دکھ رہا ہے ، وہ محمد ﷺ ہے''
و ما ارسلنک الا رحمتہ للعالمین
موسیؑ کو جلوہ ِ جاناں نہ دکھا مگر طور جلا دیا گیا ...ؑ محمدﷺ وہ کہ جنہیں خود دیدارکے لیئے خود فلک پر بُلا لیا گیا ، موسی ؑ کو چالیس رات اس تپش میں جلنا پڑا جبکہ محمد ﷺ کو چالیس سال سرور کی منازل میں محو رکھا ......
اللہ الصمد
میں تجھے چاہوں مگر تو کہاں ہے ؟ کس در دکھے گا تیرا جلوہ ۔۔؟ آئی صدا جہاں محمد ﷺ کا ذکر ہے ، وہاں ہی میں رہتا ہوں ۔۔۔۔ ۔۔لامکاں کی بلندیوں پر رفعت محمد ﷺ کے نور کو ملی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین کی حد بندیوں سے اوجِ ثریا کے رفعتوں میں نورِ علیِ نور کے سلاسل میں محمد ، احمد ، طہ ، یسین ، مزمل ، مدثر کے نوری اسما گردش میں ، ۔۔۔۔ افلاک بھی اس گردش کا حصہ ہے ،
آخری تدوین: