arifkarim
معطل
وہ کیسی ماں تھی!
وقت اشاعت: 1 دن پہلے تحریر: اے کیو قدسیہ و عارف کریم ناروے
صدیوں پہلے کی بات ہے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک آدمی اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا ۔ اس کی آٹھ سال کی ایک بیٹی تھی ۔ بہت ہی خوبصورت اور پیاری سی بچی تھی اور بہت ہی پیاری پیاری باتیں کیا کرتی تھی۔ وہ اپنے ننھے منے ہاتھوں سے اپنے باپ کا ہاتھ بٹایا کرتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بچی کی پیدائش ذلت سمجھی جاتی تھی اور کسی کے گھر جب بچی پیدا ہو جاتی تو گھر والے لوگوں سے پھرتے تھے۔
اس کے باپ کو بھی یہ سوچ کر شرم محسوس ہوتی تھی کہ لوگ جب اسے میرے ساتھ دیکھتے ہیں تو مجھے غیرت دلاتے ہیں کہ تو ایک بیٹی کا باپ ہے۔ ایک دن وہ اسے جنگل میں لے گیا بچی خوشی خوشی اس کے ساتھ گئی کہ آج ابا کے ساتھ باہر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس نے جنگل میں جا کر گڑھا کھودنا شروع کردیا اور پھر اپنی بیٹی کو اس میں دھکا دے کر اوپر جلدی جلدی مٹی ڈالنی شروع کردی۔ وہ بچی چیختی جاتی تھی ابا مجھے باہر نکالو۔ ابا میرا دم گھٹ رہا ہے۔ ابا تم میرے ساتھ یہ سب کیوں کر رہے ہو۔۔۔ لیکن باپ پر تو بیٹی کو مارنے کا بھوت سوار تھا۔ پھر وہ بیٹی کو زندہ دفن کرکے تیز تیز وہاں سے چلا آیا۔ تاکہ اس کی چیخیں نہ سنائی دیں۔ اس طرح وہ گویا اپنی ذلت کو دفن کر آیا تھا۔ اسی زمانے کی حالت کو کسی نے کچھ اس طرح بھی بیان کیا ہے:
کیا تیری قدر و قیمت تھی کچھ سوچ تیری کیا عزت تھی
توہین تو اپنی یاد تو کر، ترکہ میں بانٹی جاتی تھی
جب خون جگر سے پالنے والے،تیرا خون بہاتے تھے
جو نفرت تیری ذات سے تھی فطرت پے غالب آتی تھی
وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے
تو بھی انسان کہلاتی ہے، سب حق تیرے دلواتا ہے
یہ واقعہ جو اوپر بیان کیا گیا ہے وہ اسلام سے پہلے کے دور کا ہے، جب عرب انتہائی جاہل،ا ن پڑ ھ اور وحشی ہوا کرتے تھے۔ اسی باپ نے جب مسلمان ہونے کے بعد یہ واقعہ آنحضوﷺ کو سنایا تو آپﷺ روتے جاتے تھے تو کسی نے پوچھا حضور آپ کیوں روتے ہیں تو جواب میں آپﷺ نے فرمایا جس میں رحم نہیں اس میں کچھ نہیں۔
اسلام نے سب سے پہلے عورت کے حقوق قائم کئے اور معاشرے میں اسے مقام عطا کیا۔ اس کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی۔ اسے اپنا جیون ساتھی چننے کی بھی اجازت دی۔ اسے جائیداد میں بھی حصہ دار بنایا۔ طلاق اور خلع کے واضح اصول بیان کرکے اس کو تحفظ دیا۔ رسول پاکﷺ نے فرمایا جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے اور مناسب طریقے سے انہیں گھر سے رخصت کرے تو وہ قیامت کے روز میرے ساتھ ایسے ہو گا جیسے میرے ہاتھ کی یہ دو انگلیاں۔
مگر کیا کیا کیا ہم نے اس تعلیمات کا۔ سب کچھ بھلا دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عبادات اور اخلاقیات کی بجائے قرآن کی تعلیم صرف زبانی خرچ جمع تک محدود رہ گئی۔ عورت سے اس کی مرضی اور پسند پوچھنے کی بجائے دوسروں کا ہی خیال کرنے لگے کہ لوگ کیا کہیں گے، خاندان والے کیا کہیں گے ، ہماری عزت کا جنازہ نکل جائے گا ، وہ مٹی میں مل جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ بیچاری عورت سے کچھ بھی پوچھنا گوارا نہیں کیا جاتا اور وہ جانوروں کی طرح ایک کھونٹے سے دوسرے کھونٹے باندھ دی جاتی ہے ۔ کوئی اس کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ۔
سالہا سال سے ماضی کی طرح آج بھی عورت اس ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ دنیا درجہ بدرجہ ترقی کے مدارج طے کرتی ہوئی اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے۔ لیکن پاکستان میں آج بھی اس کے حق اور مقام کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ابھی بھی اسے پیر کی جوتی سمجھا جاتا ہے، بکاؤ مال سمجھا جاتا ہے، ایک کھلونا سمجھا جاتا ہے جس سے صرف دل بہلایا جاتا ہے اور عیاشی کا سامان سمجھا جاتا ہے۔ دوسروں کی عزتوں اور غیرتوں سے کھیلنے والے جب اپنے گھر کا رخ کرتے ہیں تو اپنے کرتوت چھپانے کے بہانے اپنی ہی بہنوں کو مار دیتے ہیں۔ کہاں لکھا ہے اسلام میں کہ خود ہی پنچایت بٹھا کر اپنی مرضی سے فیصلے کرکے لڑکی کو زندہ جلادو یا قتل کر دو ۔
سندھ کا اپنا قانون ہے کہ کاروکاری کا الزام لگا دو اور عورت کو موت کے گھاٹ اتاردو۔ کہیں قرآن کے ساتھ نکاح پڑھوا دیتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی کمی کی وجہ سے کلچر کو مذہب کا نام دے دیا جاتا ہے۔ چھوٹی عمر کی لڑکی بڑی عمر کے مرد کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہے اور اس سے پوچھا بھی نہیں جاتا۔ وہ بے چاری زندگی بھر اسی آگ میں جلتی رہتی ہے ۔ پنجاب میں وٹے سٹے کی شادی کا بھی رواج ہے۔ بعد میں اس کی قیمت بھی عورتوں کو ہی چکانا پڑتی ہے۔ ان سب مظالم کے باوجود کسی مرد کو کبھی کوئی سزا نہیں ملتی۔
حالات و واقعات نے مجھے پہلی بار قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے کچھ تو خدا کا خوف کرو پاکستان کے حکمرانو۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے چا رلڑکیاں زندہ جلا دی گئیں۔ ذرا خوف نہیں آیا ان ظالموں کو۔ ابھی تک پچھلے واقعات کے مجرموں کو سزائیں بھی نہ مل سکی ہیں جو حکومت کی کمزوری کی نشاندہی کرتی ہے۔ دکھ اس بات کا بھی ہے کہ ابھی تک کوئی بہن بھی باہر نہ نکلی کہ وہ ان مظالم کے خلاف احتجاج کریں۔وہ کیسی ماں تھی جس نے اپنی ہی بیٹی کو جلا دیا۔ بچپن میں اس کی خوشی کے لئے کیا کیا جتن نہ کئے ہونگے تو اب اگر وہ اپنی پسند کے جیون ساتھی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔ عجب ماں ہے جو اپنی بیٹی کی خوشی ہی برداشت نہیں کر سکی۔۔۔۔
یہ مضمون ناروے کے مشہور اردو رسالے کاروان میں شائع ہوا۔ میری اور والدہ صاحبہ کی مشترکہ تحریر ہے۔
اس کے باپ کو بھی یہ سوچ کر شرم محسوس ہوتی تھی کہ لوگ جب اسے میرے ساتھ دیکھتے ہیں تو مجھے غیرت دلاتے ہیں کہ تو ایک بیٹی کا باپ ہے۔ ایک دن وہ اسے جنگل میں لے گیا بچی خوشی خوشی اس کے ساتھ گئی کہ آج ابا کے ساتھ باہر کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس نے جنگل میں جا کر گڑھا کھودنا شروع کردیا اور پھر اپنی بیٹی کو اس میں دھکا دے کر اوپر جلدی جلدی مٹی ڈالنی شروع کردی۔ وہ بچی چیختی جاتی تھی ابا مجھے باہر نکالو۔ ابا میرا دم گھٹ رہا ہے۔ ابا تم میرے ساتھ یہ سب کیوں کر رہے ہو۔۔۔ لیکن باپ پر تو بیٹی کو مارنے کا بھوت سوار تھا۔ پھر وہ بیٹی کو زندہ دفن کرکے تیز تیز وہاں سے چلا آیا۔ تاکہ اس کی چیخیں نہ سنائی دیں۔ اس طرح وہ گویا اپنی ذلت کو دفن کر آیا تھا۔ اسی زمانے کی حالت کو کسی نے کچھ اس طرح بھی بیان کیا ہے:
کیا تیری قدر و قیمت تھی کچھ سوچ تیری کیا عزت تھی
توہین تو اپنی یاد تو کر، ترکہ میں بانٹی جاتی تھی
جب خون جگر سے پالنے والے،تیرا خون بہاتے تھے
جو نفرت تیری ذات سے تھی فطرت پے غالب آتی تھی
وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے
تو بھی انسان کہلاتی ہے، سب حق تیرے دلواتا ہے
یہ واقعہ جو اوپر بیان کیا گیا ہے وہ اسلام سے پہلے کے دور کا ہے، جب عرب انتہائی جاہل،ا ن پڑ ھ اور وحشی ہوا کرتے تھے۔ اسی باپ نے جب مسلمان ہونے کے بعد یہ واقعہ آنحضوﷺ کو سنایا تو آپﷺ روتے جاتے تھے تو کسی نے پوچھا حضور آپ کیوں روتے ہیں تو جواب میں آپﷺ نے فرمایا جس میں رحم نہیں اس میں کچھ نہیں۔
اسلام نے سب سے پہلے عورت کے حقوق قائم کئے اور معاشرے میں اسے مقام عطا کیا۔ اس کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی۔ اسے اپنا جیون ساتھی چننے کی بھی اجازت دی۔ اسے جائیداد میں بھی حصہ دار بنایا۔ طلاق اور خلع کے واضح اصول بیان کرکے اس کو تحفظ دیا۔ رسول پاکﷺ نے فرمایا جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے اور مناسب طریقے سے انہیں گھر سے رخصت کرے تو وہ قیامت کے روز میرے ساتھ ایسے ہو گا جیسے میرے ہاتھ کی یہ دو انگلیاں۔
مگر کیا کیا کیا ہم نے اس تعلیمات کا۔ سب کچھ بھلا دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عبادات اور اخلاقیات کی بجائے قرآن کی تعلیم صرف زبانی خرچ جمع تک محدود رہ گئی۔ عورت سے اس کی مرضی اور پسند پوچھنے کی بجائے دوسروں کا ہی خیال کرنے لگے کہ لوگ کیا کہیں گے، خاندان والے کیا کہیں گے ، ہماری عزت کا جنازہ نکل جائے گا ، وہ مٹی میں مل جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ بیچاری عورت سے کچھ بھی پوچھنا گوارا نہیں کیا جاتا اور وہ جانوروں کی طرح ایک کھونٹے سے دوسرے کھونٹے باندھ دی جاتی ہے ۔ کوئی اس کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ۔
سالہا سال سے ماضی کی طرح آج بھی عورت اس ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔ دنیا درجہ بدرجہ ترقی کے مدارج طے کرتی ہوئی اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے۔ لیکن پاکستان میں آج بھی اس کے حق اور مقام کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ابھی بھی اسے پیر کی جوتی سمجھا جاتا ہے، بکاؤ مال سمجھا جاتا ہے، ایک کھلونا سمجھا جاتا ہے جس سے صرف دل بہلایا جاتا ہے اور عیاشی کا سامان سمجھا جاتا ہے۔ دوسروں کی عزتوں اور غیرتوں سے کھیلنے والے جب اپنے گھر کا رخ کرتے ہیں تو اپنے کرتوت چھپانے کے بہانے اپنی ہی بہنوں کو مار دیتے ہیں۔ کہاں لکھا ہے اسلام میں کہ خود ہی پنچایت بٹھا کر اپنی مرضی سے فیصلے کرکے لڑکی کو زندہ جلادو یا قتل کر دو ۔
سندھ کا اپنا قانون ہے کہ کاروکاری کا الزام لگا دو اور عورت کو موت کے گھاٹ اتاردو۔ کہیں قرآن کے ساتھ نکاح پڑھوا دیتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی کمی کی وجہ سے کلچر کو مذہب کا نام دے دیا جاتا ہے۔ چھوٹی عمر کی لڑکی بڑی عمر کے مرد کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہے اور اس سے پوچھا بھی نہیں جاتا۔ وہ بے چاری زندگی بھر اسی آگ میں جلتی رہتی ہے ۔ پنجاب میں وٹے سٹے کی شادی کا بھی رواج ہے۔ بعد میں اس کی قیمت بھی عورتوں کو ہی چکانا پڑتی ہے۔ ان سب مظالم کے باوجود کسی مرد کو کبھی کوئی سزا نہیں ملتی۔
حالات و واقعات نے مجھے پہلی بار قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے کچھ تو خدا کا خوف کرو پاکستان کے حکمرانو۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے چا رلڑکیاں زندہ جلا دی گئیں۔ ذرا خوف نہیں آیا ان ظالموں کو۔ ابھی تک پچھلے واقعات کے مجرموں کو سزائیں بھی نہ مل سکی ہیں جو حکومت کی کمزوری کی نشاندہی کرتی ہے۔ دکھ اس بات کا بھی ہے کہ ابھی تک کوئی بہن بھی باہر نہ نکلی کہ وہ ان مظالم کے خلاف احتجاج کریں۔وہ کیسی ماں تھی جس نے اپنی ہی بیٹی کو جلا دیا۔ بچپن میں اس کی خوشی کے لئے کیا کیا جتن نہ کئے ہونگے تو اب اگر وہ اپنی پسند کے جیون ساتھی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔ عجب ماں ہے جو اپنی بیٹی کی خوشی ہی برداشت نہیں کر سکی۔۔۔۔
یہ مضمون ناروے کے مشہور اردو رسالے کاروان میں شائع ہوا۔ میری اور والدہ صاحبہ کی مشترکہ تحریر ہے۔