وہ کیوں بد گماں ہو گیا ( برائے اصلاح )

الف عین
فلسفی ، خلیل الرحمن اور دیگر
---------------
بات سننا بھی اُن کو گراں ہو گیا
مدعا کچھ نہ کچھ تو بیاں ہو گیا
----------
تلخ باتوں سے اُس کی پتہ یہ چلا
جو ارادہ ہے اُس کا عیاں ہو گیا
---------------
آج آیا ہے ظالم وہ گھر پر مرے
دیکھ کتنا سُہانا سماں ہو گیا
------------------------
میں نے اُس کاہمیشہ ہی چاہا بھلا
پھر بھی مجھ سے وہ کیوں بد گماں ہو گیا
---------------------
حکم چلتا ہے دنیا پہ رب کا مرے
جو بھی ظالم تھا وہ داستاں ہو گیا
-----------------
عشق دنیا میں جینا سکھاتا رہا
پیار میرا تو بس پاسباں ہو گیا
--------------
چاہتا تھا مجھے وہ بہت ٹوٹ کر
آج اُس کے لئے میں فلاں ہو گیا
----------------
چاہتا ہے خدا جس کو عزّت ملے
ذکر اُس کی زباں پہ رواں ہو گیا
-------------------
آج ارشد کا دل کیوں پریشان ہے
مجھ کو لگتا ہے شاید زیاں ہو گیا
یا
مجھ کو لگتا ہے کچھ ہے زیاں ہو گیا
------------------------
 
ہماری صلاح

مقطع دوبارہ کہہ لیجیے۔ باقی غزل لاجواب ہے۔ بہت داد قبول کیجیے۔

نوٹ : غزل کا عنوان نہیں رکھا جاتا بلکہ عام طور پر مطلع کے مکمل مصرع کو استعمال کیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہاں اس غزل میں کچھ تخیل نظر آتا ہے
بات سننا بھی اُن کو گراں ہو گیا
مدعا کچھ نہ کچھ تو بیاں ہو گیا
---------- درست

تلخ باتوں سے اُس کی پتہ یہ چلا
جو ارادہ ہے اُس کا عیاں ہو گیا
--------------- جو ارادہ تھا اس کا.... باقی درست

آج آیا ہے ظالم وہ گھر پر مرے
دیکھ کتنا سُہانا سماں ہو گیا
------------------------ درست

میں نے اُس کاہمیشہ ہی چاہا بھلا
پھر بھی مجھ سے وہ کیوں بد گماں ہو گیا
--------------------- پہلا مصرع شاید یوں بہتر ہو
میں نے چاہا تھا اس کا ہمیشہ بھلا

حکم چلتا ہے دنیا پہ رب کا مرے
جو بھی ظالم تھا وہ داستاں ہو گیا
----------------- درست

عشق دنیا میں جینا سکھاتا رہا
پیار میرا تو بس پاسباں ہو گیا
-------------- پاسباں؟ کس چیز کی چوکی داری کر سکتا ہے پیار؟

چاہتا تھا مجھے وہ بہت ٹوٹ کر
آج اُس کے لئے میں فلاں ہو گیا
---------------- پہلا مصرع
وہ بھی دن تھے. مجھے چاہتا تھا بہت
ہو تو بہتر ہو شاید

چاہتا ہے خدا جس کو عزّت ملے
ذکر اُس کی زباں پہ رواں ہو گیا
------------------- پہ کی بجائے پر، اگرچہ پر رواں میں تنافر ہے

بات کرتا ہے ارشد تو آداب سے
پھر بھی کہتے ہیں وہ بد زباں ہو گیا
اچھا مقطع ہو گا
 
الف عین -
-------------
بات سننا بھی اُن کو گراں ہو گیا
مدعا کچھ نہ کچھ تو بیاں ہو گیا
-----------
تلخ باتوں سے اُس کی پتہ یہ چلا
جو ارادہ تھا اُس کا عیاں ہو گیا
-----------
آج آیا ہے ظالم وہ گھر پر مرے
دیکھ کتنا سُہانا سماں ہو گیا
----------
میں نے چاہا تھا اُس کا ہمیشہ بھلا
پھر بھی مجھ سےوہ کیوں بد گماں ہو گیا
----------
حُکم چلتا ہے دنیا پہ رب کا مرے
جو بھی ظالم تھا وہ داستاں ہو گیا
--------------
عشق دنیا میں جینا سکھاتا رہا
پیار کا میں بھی تو پاسباں ہو گیا
-----------
وہ بھی دن تھےمجھے چاہتا تھا بہت
آج اُس کے لئے میں فلاں ہو گیا
--------------
چاہتا ہے خدا جس کو عزّت ملے
ذکر اُس کی زباں پر رواں ہو گیا
-------------
بات کرتا ہے ارشد تو آداب سے
پھر بھی کہتے ہیں وہ بد زباں ہو گیا
------------------
 
Top