اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے _
غزل
آنکھوں کے راستے مِرے دل میں اتر گئے
بس دو گھڑی میں وہ مجھے دیوانہ کر گئے
میں دوستی کی کیسے رکھوں ان سے کچھ امید
جو دشمنی کی ساری حدوں سے گزر گئے
جھٹکا جب اس نے زلف سے پانی تو یوں لگا
جیسے زمیں پہ ٹوٹ کے تارے بکھر گئے
کہتا تھا میں کہ ان پہ بھروسہ نہ کیجیے
دیکھا ! وہ اپنی بات سے کیسے مکر گئے
کچھ لوگ میرے دل میں رہا کرتے تھے کبھی
پھر یوں ہُوا کہ وہ مِرے دل سے اتر گئے
تنہا ہمی نہیں مَرے ان کی جدائی میں
ہم سے بچھڑ کے وہ بھی تو بے موت مر گئے
اب کیا بتائیں عید میں اِس سال کیا ہُوا
وہ گھر ہمارے آئے نہ ہم ان کے گھر گئے
ملنا تو دور ، فون بھی کرتا نہیں ہے وہ
میسج بھی اس کے آئے مہینوں گزر گئے
دل ٹوٹنا ہمارے لیے عام سی ہے بات
ہاں ! خاص بات یہ ہے کہ اب ہم سدھر گئے
کیسے خلوص ، مہر و وفا اب ملے کہیں
دنیا سے ایسے لوگ تو کب کے گزر گئے
کچھ بات ہے جو اب نہیں مرہم کی آرزو
ایسا نہیں کہ میرے سبھی زخم بھر گئے
فریاد ہو کہ سوہنی مجنوں ہو یا ہو ہیر
کب پیار کرنے والے زمانے سے ڈر گئے
مجھ سے کہا جب اس نے ، "مجھے آپ سے ہے عشق"
مرتے تھے اس پہ جتنے ، یہ سنتے ہی مر گئے
اشرف ! بتا بھی دو ہمیں کیا بات ہے کہ تم
چپ چاپ آج اس کی گلی سے گزر گئے
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے _
غزل
آنکھوں کے راستے مِرے دل میں اتر گئے
بس دو گھڑی میں وہ مجھے دیوانہ کر گئے
میں دوستی کی کیسے رکھوں ان سے کچھ امید
جو دشمنی کی ساری حدوں سے گزر گئے
جھٹکا جب اس نے زلف سے پانی تو یوں لگا
جیسے زمیں پہ ٹوٹ کے تارے بکھر گئے
کہتا تھا میں کہ ان پہ بھروسہ نہ کیجیے
دیکھا ! وہ اپنی بات سے کیسے مکر گئے
کچھ لوگ میرے دل میں رہا کرتے تھے کبھی
پھر یوں ہُوا کہ وہ مِرے دل سے اتر گئے
تنہا ہمی نہیں مَرے ان کی جدائی میں
ہم سے بچھڑ کے وہ بھی تو بے موت مر گئے
اب کیا بتائیں عید میں اِس سال کیا ہُوا
وہ گھر ہمارے آئے نہ ہم ان کے گھر گئے
ملنا تو دور ، فون بھی کرتا نہیں ہے وہ
میسج بھی اس کے آئے مہینوں گزر گئے
دل ٹوٹنا ہمارے لیے عام سی ہے بات
ہاں ! خاص بات یہ ہے کہ اب ہم سدھر گئے
کیسے خلوص ، مہر و وفا اب ملے کہیں
دنیا سے ایسے لوگ تو کب کے گزر گئے
کچھ بات ہے جو اب نہیں مرہم کی آرزو
ایسا نہیں کہ میرے سبھی زخم بھر گئے
فریاد ہو کہ سوہنی مجنوں ہو یا ہو ہیر
کب پیار کرنے والے زمانے سے ڈر گئے
مجھ سے کہا جب اس نے ، "مجھے آپ سے ہے عشق"
مرتے تھے اس پہ جتنے ، یہ سنتے ہی مر گئے
اشرف ! بتا بھی دو ہمیں کیا بات ہے کہ تم
چپ چاپ آج اس کی گلی سے گزر گئے