جاسم محمد
محفلین
وہ گیا نواز شریف!
محمد حنیف صحافی و تجزیہ کار
ایک دفعہ ان گناہ گار آنکھوں نے یہ منظر دیکھا تھا کہ جلاوطنی سے نواز شریف واپس آنا چاہتے تھے۔ صحافیوں اور حواریوں سے بھرے جہاز میں لندن سے سوار ہوئے۔
ان کی آمد سے پہلے ہی سعودی خفیہ ایجنسی والے شہزادے اور ایک لبنانی وزیراعظم کے بیٹے اسلام آباد میں کاغذ کا پرچہ لہراتے پائے گئے کہ نواز شریف تو وعدہ کر کے گئے تھے کہ دس سال نہیں آئیں گے۔
نواز شریف کا جہاز اسلام آباد میں اترا تو انھیں لاؤنج میں ہی روک لیا گیا اور کچھ گھنٹوں کے مذاکرات جس میں گفتگو کم اور دھکم پیل زیادہ ہوئی نواز شریف کو ڈنڈا ڈولی کر کے سعودی عرب سے آئے ہوئے ایک شاہی جہاز میں بٹھایا گیا اور واپس جلاوطن کر دیا گیا۔
پھر مشرف کے آخری دنوں والے الیکشن ہوئے تو نواز شریف واپس آئے، بے نظیر بھٹو کی ہلاکت پر روئے، الیکشن ہارے اور کالا کوٹ پہن کر حکومت گرانے کو چل پڑے۔
پھر خود الیکشن جیتا اور تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھنے بھی لگے۔ یقیناً کچھ حلقوں میں جھنجھلاہٹ پائی جاتی تھی کہ یہ کیا ڈھیٹ ہڈی ہے باہر بھیجتے ہیں یہ پھر آ جاتا ہے، نہ صرف آ جاتا ہے بلکہ وزیر اعظم بن جاتا ہے اور نہ صرف آ جاتا ہے بلکہ اپنے آپ کو سمجھنے بھی لگتا ہے۔
نواز شریف اپنی قریب المرگ بیگم کی عیادت چھوڑ کر آئے، جیل جانا یقینی تھا، پھر بھی آئے۔ اس دفعہ سیاستدانوں کو ادھر ادھر، اندر باہر کرنے والوں کو خیال آیا ہو گا کہ اب نواز شریف اپنے ہی جال میں آ گیا ہے۔ پاکستان آنے کا بڑا شوق ہے تو آئے جیلیں موجود ہیں، عدالتیں صادق امین اور اقامے کی صداؤں سے گونج رہی ہیں، میڈیا کھربوں کی کرپشن بتا رہا ہے، کوئی دو سو ارب ڈالر گن رہا ہے، کوئی کھانے کی میز پر لگی بوٹیاں شمار کر رہا ہے۔
ایسا ہنگامہ مچا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ایک ایسی پھسپھسی جگت بن جاتا ہے جس پر کسی کو ہنسی نہیں آتی۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionنواز شریف کے حامیوں کی بڑی تعداد انھیں الوداع کرنے کے لیے لاہور ایئرپورٹ پہنچی
جب ساتھی وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹڈ کہتے ہیں تو سلیکٹروں کا نام لیتے شرماتے ہیں۔ جب لاڈلا کہتے ہیں تو یہ نہیں بتاتے کہ اتنا لاڈ کس کو آ رہا ہے۔ اس امید میں رہتے ہیں کہ شاید روٹھا صنم ایک دفعہ پھر ہم پر نظر کرم ڈال دے۔
ادھر جس نوجوان نسل کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ ہر مسئلے کا حل چوکوں پر پھانسیاں ہیں، وہ اب اس کے درپے ہے کہ جیلوں سے ایئرکنڈیشنر نکالو، گھر کا کھانا بند کرو، صاف سا مطالبہ ہے کہ اسے جیل میں ذلیل کر کے مارو، کہیں ایک بار نکل گیا تو پھر واپس نہ آ جائے۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ سب کے سامنے بھی ہے اور منظر سے غائب بھی۔ جنھوں نے جے آئی ٹی میں ڈبے کے ڈبے ثبوت پیش کیے تھے، جو نیب ہر روز اربوں ڈالر کے خواب دکھاتی تھی۔ سب منظر سے غائب۔
وہ کابینہ جو آخر میں سات ارب کا اشٹام لکھوانے پر مصر تھی، جو نعرے لگاتی تھی کہ مال نکالو تو ہم تمہارے باپ کو کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس بھیجیں گے وہ بھی چھٹی پر چلی جاتی ہے اور ملک کا قیدی نمبر ایک ایسی کچی رسید پر ملک سے باہر چلا جاتا ہے جس پر کوئی موٹرسائیکل بھی کرائے پر نہ دے۔
اب ہمارے بظاہر نظر آتے صاحبان اقتدار اپنے منھ پر وہ چپیڑیں مار رہے ہیں جو کل تک اپنے مخالفین کے منھ پر مار رہے تھے۔
قطری جہاز آیا اور مریض کو لے کر چلا گیا۔ اللہ تندرستی دے۔ لیکن ایسی دعائیں ہمیں اپنے لیے بھی کرنی چاہیں کہ ہم مسلسل ایک اضطرابی کیفیت میں ہیں خدا ہمیں بھی افاقہ دے۔
ورنہ ہم اپنے دائمی حکمرانوں کا سکون دیکھ کر ہی سبق سیکھ لیں۔
انھوں نے نواز شریف کو پہلے باہر بھیجا، پھر دوبارہ باہر بھیجا، پھر اندر بھیجا اب ایک بار پھر باہر جانے دیا، اب کبھی واپس آ بھی گیا تو کیا ایسا کرے گا جو پہلی تین آنیوں جانیوں میں نہیں کر سکا۔
محمد حنیف صحافی و تجزیہ کار
- 20 نومبر 2019
ایک دفعہ ان گناہ گار آنکھوں نے یہ منظر دیکھا تھا کہ جلاوطنی سے نواز شریف واپس آنا چاہتے تھے۔ صحافیوں اور حواریوں سے بھرے جہاز میں لندن سے سوار ہوئے۔
ان کی آمد سے پہلے ہی سعودی خفیہ ایجنسی والے شہزادے اور ایک لبنانی وزیراعظم کے بیٹے اسلام آباد میں کاغذ کا پرچہ لہراتے پائے گئے کہ نواز شریف تو وعدہ کر کے گئے تھے کہ دس سال نہیں آئیں گے۔
نواز شریف کا جہاز اسلام آباد میں اترا تو انھیں لاؤنج میں ہی روک لیا گیا اور کچھ گھنٹوں کے مذاکرات جس میں گفتگو کم اور دھکم پیل زیادہ ہوئی نواز شریف کو ڈنڈا ڈولی کر کے سعودی عرب سے آئے ہوئے ایک شاہی جہاز میں بٹھایا گیا اور واپس جلاوطن کر دیا گیا۔
پھر مشرف کے آخری دنوں والے الیکشن ہوئے تو نواز شریف واپس آئے، بے نظیر بھٹو کی ہلاکت پر روئے، الیکشن ہارے اور کالا کوٹ پہن کر حکومت گرانے کو چل پڑے۔
پھر خود الیکشن جیتا اور تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھنے بھی لگے۔ یقیناً کچھ حلقوں میں جھنجھلاہٹ پائی جاتی تھی کہ یہ کیا ڈھیٹ ہڈی ہے باہر بھیجتے ہیں یہ پھر آ جاتا ہے، نہ صرف آ جاتا ہے بلکہ وزیر اعظم بن جاتا ہے اور نہ صرف آ جاتا ہے بلکہ اپنے آپ کو سمجھنے بھی لگتا ہے۔
نواز شریف اپنی قریب المرگ بیگم کی عیادت چھوڑ کر آئے، جیل جانا یقینی تھا، پھر بھی آئے۔ اس دفعہ سیاستدانوں کو ادھر ادھر، اندر باہر کرنے والوں کو خیال آیا ہو گا کہ اب نواز شریف اپنے ہی جال میں آ گیا ہے۔ پاکستان آنے کا بڑا شوق ہے تو آئے جیلیں موجود ہیں، عدالتیں صادق امین اور اقامے کی صداؤں سے گونج رہی ہیں، میڈیا کھربوں کی کرپشن بتا رہا ہے، کوئی دو سو ارب ڈالر گن رہا ہے، کوئی کھانے کی میز پر لگی بوٹیاں شمار کر رہا ہے۔
ایسا ہنگامہ مچا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ایک ایسی پھسپھسی جگت بن جاتا ہے جس پر کسی کو ہنسی نہیں آتی۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionنواز شریف کے حامیوں کی بڑی تعداد انھیں الوداع کرنے کے لیے لاہور ایئرپورٹ پہنچی
جب ساتھی وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹڈ کہتے ہیں تو سلیکٹروں کا نام لیتے شرماتے ہیں۔ جب لاڈلا کہتے ہیں تو یہ نہیں بتاتے کہ اتنا لاڈ کس کو آ رہا ہے۔ اس امید میں رہتے ہیں کہ شاید روٹھا صنم ایک دفعہ پھر ہم پر نظر کرم ڈال دے۔
ادھر جس نوجوان نسل کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ ہر مسئلے کا حل چوکوں پر پھانسیاں ہیں، وہ اب اس کے درپے ہے کہ جیلوں سے ایئرکنڈیشنر نکالو، گھر کا کھانا بند کرو، صاف سا مطالبہ ہے کہ اسے جیل میں ذلیل کر کے مارو، کہیں ایک بار نکل گیا تو پھر واپس نہ آ جائے۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ سب کے سامنے بھی ہے اور منظر سے غائب بھی۔ جنھوں نے جے آئی ٹی میں ڈبے کے ڈبے ثبوت پیش کیے تھے، جو نیب ہر روز اربوں ڈالر کے خواب دکھاتی تھی۔ سب منظر سے غائب۔
وہ کابینہ جو آخر میں سات ارب کا اشٹام لکھوانے پر مصر تھی، جو نعرے لگاتی تھی کہ مال نکالو تو ہم تمہارے باپ کو کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس بھیجیں گے وہ بھی چھٹی پر چلی جاتی ہے اور ملک کا قیدی نمبر ایک ایسی کچی رسید پر ملک سے باہر چلا جاتا ہے جس پر کوئی موٹرسائیکل بھی کرائے پر نہ دے۔
اب ہمارے بظاہر نظر آتے صاحبان اقتدار اپنے منھ پر وہ چپیڑیں مار رہے ہیں جو کل تک اپنے مخالفین کے منھ پر مار رہے تھے۔
قطری جہاز آیا اور مریض کو لے کر چلا گیا۔ اللہ تندرستی دے۔ لیکن ایسی دعائیں ہمیں اپنے لیے بھی کرنی چاہیں کہ ہم مسلسل ایک اضطرابی کیفیت میں ہیں خدا ہمیں بھی افاقہ دے۔
ورنہ ہم اپنے دائمی حکمرانوں کا سکون دیکھ کر ہی سبق سیکھ لیں۔
انھوں نے نواز شریف کو پہلے باہر بھیجا، پھر دوبارہ باہر بھیجا، پھر اندر بھیجا اب ایک بار پھر باہر جانے دیا، اب کبھی واپس آ بھی گیا تو کیا ایسا کرے گا جو پہلی تین آنیوں جانیوں میں نہیں کر سکا۔