کاشفی
محفلین
غزل
ویسے تو وہ ’ ہوں ، ہاں ‘ کے سوا کچھ نہیں کہتے
کہنے پہ جب آ جائیں تو کیا کچھ نہیں کہتے!
ہو جائے مِرے دل میں کچھ الہام خدایا
کیوں ہو گئے وہ مجھ سے خفا کچھ نہیں کہتے
کوزے میں سمندر وہ سمونے کے ہیں قائل
وہ لوگ بھی غزلوں کے سوا کچھ نہیں کہتے
وہ حد سے گزرنے لگا جب ظلم و ستم میں
سب دیکھ کے ہم کیسے بھلا کچھ نہیں کہتے
برسوں سے سناتے ہیں وہی طرز بدل کر
ہر اِک کو پتا ہے وہ نیا کچھ نہیں کہتے
کرتے ہیں پریشاں وہ ہمیشہ مجھے راغب
اپنی ہی کہے جاتے ہیں یا کچھ نہیں کہتے
افتخار راغب
گوپال گنج، بہار - مقیم دوحہ۔ قطر
ویسے تو وہ ’ ہوں ، ہاں ‘ کے سوا کچھ نہیں کہتے
کہنے پہ جب آ جائیں تو کیا کچھ نہیں کہتے!
ہو جائے مِرے دل میں کچھ الہام خدایا
کیوں ہو گئے وہ مجھ سے خفا کچھ نہیں کہتے
کوزے میں سمندر وہ سمونے کے ہیں قائل
وہ لوگ بھی غزلوں کے سوا کچھ نہیں کہتے
وہ حد سے گزرنے لگا جب ظلم و ستم میں
سب دیکھ کے ہم کیسے بھلا کچھ نہیں کہتے
برسوں سے سناتے ہیں وہی طرز بدل کر
ہر اِک کو پتا ہے وہ نیا کچھ نہیں کہتے
کرتے ہیں پریشاں وہ ہمیشہ مجھے راغب
اپنی ہی کہے جاتے ہیں یا کچھ نہیں کہتے
افتخار راغب
گوپال گنج، بہار - مقیم دوحہ۔ قطر