محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
’’ویلنٹائنز ڈے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھنیرے برگد کی چھاؤں میں
اک سڑک کنارے رکھی ہوئی بنچ پر
نجانے وہ کن خیالوں میں گم تھی بیٹھی
کہ ایک جھونکا ہوا کا، آ کر
گرا گیا اس کے اجلے دامن پر اک کلی،
جو تھی ادھ کھلی
پھر یہیں خیالوں کے سلسلے نے بھی سمت بدلی
جھکیں وہ پلکیں
نگاہیں دامن پر آ رُکیں
(اور کلی نے، مرجھانے کو جو تھی بس!
بہت ہی نازک سی انگلیوں کا جو لمس پایا
تو کھل اٹھی یوں
کہ جیسے اس کو حیاتِ نَو اک عطا ہوئی ہو)
پھر ایک لمحے کو اس کی سوچوں کے تانے بانے مزید الجھے
مگر،
کلی سے ہی آرہی اس محبتوں کی مہک سے
اس کو یہ یاد آیا
کہ آج تو ’’چودہ فروری‘‘ ہے!
(وفا کے وعدوں، محبتوں کے اظہار کا دن!)
یہ سوچا اسے نے
گزشتہ کچھ سالوں سے نجانےکیا سلسلہ ہے
کہ ہر برس کے اسی مہینے کے عین اس دن
انہیں پَلوں میں
ہوا کا ایسا ہی ایک جھونکا
گراکے دامن پر اک کلی
وہ کیوں اگلے پَل ہی گزر ہے جاتا
اور اس گھڑی میں
وہ اک کلی کے معاوضے میں
سکون، راحت، قرار دل کا
کچھ اس ادا سے ہے لے کے جاتا
کہ جیسے اگلے ہی پل میں
دگنا سکون، راحت، قرار دے گا
جو چند خوشیاں وہ لے چلا ہے
مرے لئے جاوداں کرے گا!
میں ناداں
اپنا تمام سرمایہ یوں لُٹا کر
اس اک کلی کو سنبھال رکھتی ہوں
اس بھروسے
ضرور آئے گا وہ پلٹ کر
سکون لے کر، قرار لے کر
محبتیں بے شمار لے کر
جو چند خوشیاں وہ لے گیا تھا
انہیں کے جیسی ہزار لے کر
مگر!
کچھ ایسا ابھی تلک تو نہیں ہوا ہے
میں ایسی کلیوں کے بدلے اب تک
سکون ، راحت، قرار کتنا لٹا چکی ہوں
جو چند تھیں، وہ بہت سی خوشیاں گنوا چکی ہوں!
محبتوں کا ثمر جو اب تک نہیں ملا ہے
میں اس کی خاطر
کیوں اب کے پھر سے، اسی مہینے کے عین اس دن
انہی پَلوں میں
فریب الفت میں جو گنوا کر، جمع کیا ہے نئے سرے سے
نئے سرے سے لٹا رہی ہوں؟؟؟
گھنیرے برگد کی چھاؤں میں
اُس سڑک کنارے رکھی ہوئی بنچ سے
اچانک جھٹک کے سر کو
بہت ہی نازک سی انگلیوں سے پریشاں زلفیں سنوار کر
اور جھکا کے پلکیں
لگا کےسینے سے کچھ کتابیں
کلی ہوا کے سپرد کرکے چلی گئی وہ
کہ جیسے اس سے یہ کہہ رہی ہو
’’دوام ایسی محبتوں کو بھلا کیا ہوگا
کہ جن کے اظہار کے لئے ہی بس ایک دن ہو!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھنیرے برگد کی چھاؤں میں
اک سڑک کنارے رکھی ہوئی بنچ پر
نجانے وہ کن خیالوں میں گم تھی بیٹھی
کہ ایک جھونکا ہوا کا، آ کر
گرا گیا اس کے اجلے دامن پر اک کلی،
جو تھی ادھ کھلی
پھر یہیں خیالوں کے سلسلے نے بھی سمت بدلی
جھکیں وہ پلکیں
نگاہیں دامن پر آ رُکیں
(اور کلی نے، مرجھانے کو جو تھی بس!
بہت ہی نازک سی انگلیوں کا جو لمس پایا
تو کھل اٹھی یوں
کہ جیسے اس کو حیاتِ نَو اک عطا ہوئی ہو)
پھر ایک لمحے کو اس کی سوچوں کے تانے بانے مزید الجھے
مگر،
کلی سے ہی آرہی اس محبتوں کی مہک سے
اس کو یہ یاد آیا
کہ آج تو ’’چودہ فروری‘‘ ہے!
(وفا کے وعدوں، محبتوں کے اظہار کا دن!)
یہ سوچا اسے نے
گزشتہ کچھ سالوں سے نجانےکیا سلسلہ ہے
کہ ہر برس کے اسی مہینے کے عین اس دن
انہیں پَلوں میں
ہوا کا ایسا ہی ایک جھونکا
گراکے دامن پر اک کلی
وہ کیوں اگلے پَل ہی گزر ہے جاتا
اور اس گھڑی میں
وہ اک کلی کے معاوضے میں
سکون، راحت، قرار دل کا
کچھ اس ادا سے ہے لے کے جاتا
کہ جیسے اگلے ہی پل میں
دگنا سکون، راحت، قرار دے گا
جو چند خوشیاں وہ لے چلا ہے
مرے لئے جاوداں کرے گا!
میں ناداں
اپنا تمام سرمایہ یوں لُٹا کر
اس اک کلی کو سنبھال رکھتی ہوں
اس بھروسے
ضرور آئے گا وہ پلٹ کر
سکون لے کر، قرار لے کر
محبتیں بے شمار لے کر
جو چند خوشیاں وہ لے گیا تھا
انہیں کے جیسی ہزار لے کر
مگر!
کچھ ایسا ابھی تلک تو نہیں ہوا ہے
میں ایسی کلیوں کے بدلے اب تک
سکون ، راحت، قرار کتنا لٹا چکی ہوں
جو چند تھیں، وہ بہت سی خوشیاں گنوا چکی ہوں!
محبتوں کا ثمر جو اب تک نہیں ملا ہے
میں اس کی خاطر
کیوں اب کے پھر سے، اسی مہینے کے عین اس دن
انہی پَلوں میں
فریب الفت میں جو گنوا کر، جمع کیا ہے نئے سرے سے
نئے سرے سے لٹا رہی ہوں؟؟؟
گھنیرے برگد کی چھاؤں میں
اُس سڑک کنارے رکھی ہوئی بنچ سے
اچانک جھٹک کے سر کو
بہت ہی نازک سی انگلیوں سے پریشاں زلفیں سنوار کر
اور جھکا کے پلکیں
لگا کےسینے سے کچھ کتابیں
کلی ہوا کے سپرد کرکے چلی گئی وہ
کہ جیسے اس سے یہ کہہ رہی ہو
’’دوام ایسی محبتوں کو بھلا کیا ہوگا
کہ جن کے اظہار کے لئے ہی بس ایک دن ہو!‘‘