ویلنٹائن ڈے

گل بانو

محفلین
آئیے عہدِ وفا کریں !!! یہ جملہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہا ہے ذراسوچئے ! کیا یہ ہمارا تہوار ، تمدن ،تہذیب ، ہمارا کلچر ،ہمارا مذہب ہے ؟یا ہمارا طرز معاشرت ؟ یا پھر ہماری روایات سے اس کے تانے بانے جڑے ہیں ؟ یا پھر ہم غیروں کی اندھی تقلید میں ایسے لا یعنی اور لغو کاموں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ؟
ہم بحیثیت مسلمان محبت پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ ہر رشتے کی محبت ہم پرلازم قرار دی گئی ہے ۔ اللہ کے احکام کو رغبت سے ادا کرنا ہی دراصل اللہ سے محبت کا حق ادا کرنا ہے ۔کیا ہم ایک دن میں یہ حق ادا کر سکتے ہیں ؟ ساری زندگی اور تا قیامت ہم یہ حق ادا کرتے رہیں گے پھر بھی حق ادا نہ ہوگا !!!
’’ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ‘‘
مومن کی تو ساری زندگی اللہ اور اس کے بندوں کی محبت میں گزر جاتی ہے ۔ انسانیت سے محبت کا جو درس ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں دیا کیا اس طرح کی محبت ہمیں کہیں اور نظر آتی ہے؟ ہر گز نہیں !!! ہم تو پہلے ہی محبت سے مالا مال ہیں ہمیں کسی لغو محبت کی ضرورت ہر گز نہیں ۔کہاں وہ محبت جہاں انسانیت پنپتی ہے اور کہاں یہ فرعونی ابوالہوسی کہ انسانیت شرمسار ہوجائے ، سوچئے اور سوچتے جائیے !
ہماری محبتوں کا معیار قطعی طور پر مختلف ہے اور ہماری سماجی، اخلاقی، تہذیبی، دینی زندگی ویلنٹائن ڈے جیسی لغویات کی متحمل نہیں ہو سکتی، نہ ہمیں اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کا ماخذ وہ معاشرہ ہے جہاں شرم و حیا کو تیاگ دیا گیا ہے اور بے ہودہ روی کو روایات کا لبادہ پہنا کر تہوار کی شکل دی جاچکی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو اس دجالی یلغار سے بچانا ہوگا جو بے راہ روی کو راہ دے رہی ہے، نہایت درد مندی سے اس کے تدارک کے لیے اپنی ساری توانائیاں صَرف کرنا ہوں گی، سنجیدگی سے کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا اور سختی سے اس پر عمل دارآمدکروانا ہوگا۔ہر ایک کو اپنے شعبے میں جد و جہد کا حصہ ڈالنا ہوگا ۔
اس میں سب بڑا کردار میڈیا کا ہے ۔ میڈیارجحان ساز ہوتا ہے ۔ میڈیا کو اپنے ہر چینل پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ اب وہ وقت ہے کہ اس کے منفی اثرات پر ایک ڈاکومنٹری بنا کر ہر چینل پر چلائی جائے ۔نہ کے اس کو تہوار کی شکل میں پیش کریں ۔ بدقسمتی سے ہمارے اکثر میڈیا چینل اس قبیح رسم کی ترویج و تشہیر میں ممد و معاون ہو رہے ہیں۔
والدین اور اساتذہ کا کردار بلا شبہ بہت اہم ہے۔ والدین اپنے بچوں کو بہتر جانتے ہیں بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پرعمومی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور مخلوط میل جول سے اجتناب کروائیں ۔ اساتذہ بھی اس میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کریں۔ اسکول اور اس کے بعد کالج کے دن بچوں کی زندگی کے اہم اور یاد گار دن ہوتے ہیں ۔ہماری ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ فی زمانہ تعلیمی اداروں میں کردار سازی کا عنصر یکسر نکال دیا گیا ہے۔ خال خال کوئی ایسا استاد ہو گا جو طلباء کو اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہو، نہیں تو ہر استاد اپنے اپنے مضمون کی ’’معلومات‘‘ بچوں تک پہنچاتا ہے اور وہ جسے حقیقی معنوں میں ’’علم و دانش‘‘ کہا جا سکے ہماری دانش گاہوں میں عنقا ہو رہے ہیں۔ بچوں کی معصومیت ویلنٹائن دے جیسی خرافات کی بالکل متحمل نہیں ہو سکتی ۔طلبا کو اس طرح کی فحش اور فضول باتوں سے دور رکھنا استاد کا فرض ہے ۔
اللہ ہم سب کو اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرنے کی توفیق دے۔ آمین!
 
آج کل کا اسلامی معاشرہ جس ڈگر پر چل رہا ہے اس کا خدا ہی حافظ ہے۔انگریزی گمراہیوں میں لتھڑا یہ معاشرہ ابھی بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ترقی اللہ نے انہی کہ مقدر میں لکھی ہوئی ہے۔
بہت زبردست تحریر
 

فرحت کیانی

لائبریرین
آئیے عہدِ وفا کریں !!! یہ جملہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہا ہے ذراسوچئے ! کیا یہ ہمارا تہوار ، تمدن ،تہذیب ، ہمارا کلچر ،ہمارا مذہب ہے ؟یا ہمارا طرز معاشرت ؟ یا پھر ہماری روایات سے اس کے تانے بانے جڑے ہیں ؟ یا پھر ہم غیروں کی اندھی تقلید میں ایسے لا یعنی اور لغو کاموں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ؟
ہم بحیثیت مسلمان محبت پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ ہر رشتے کی محبت ہم پرلازم قرار دی گئی ہے ۔ اللہ کے احکام کو رغبت سے ادا کرنا ہی دراصل اللہ سے محبت کا حق ادا کرنا ہے ۔کیا ہم ایک دن میں یہ حق ادا کر سکتے ہیں ؟ ساری زندگی اور تا قیامت ہم یہ حق ادا کرتے رہیں گے پھر بھی حق ادا نہ ہوگا !!!
’’ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ‘‘
مومن کی تو ساری زندگی اللہ اور اس کے بندوں کی محبت میں گزر جاتی ہے ۔ انسانیت سے محبت کا جو درس ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں دیا کیا اس طرح کی محبت ہمیں کہیں اور نظر آتی ہے؟ ہر گز نہیں !!! ہم تو پہلے ہی محبت سے مالا مال ہیں ہمیں کسی لغو محبت کی ضرورت ہر گز نہیں ۔کہاں وہ محبت جہاں انسانیت پنپتی ہے اور کہاں یہ فرعونی ابوالہوسی کہ انسانیت شرمسار ہوجائے ، سوچئے اور سوچتے جائیے !
ہماری محبتوں کا معیار قطعی طور پر مختلف ہے اور ہماری سماجی، اخلاقی، تہذیبی، دینی زندگی ویلنٹائن ڈے جیسی لغویات کی متحمل نہیں ہو سکتی، نہ ہمیں اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کا ماخذ وہ معاشرہ ہے جہاں شرم و حیا کو تیاگ دیا گیا ہے اور بے ہودہ روی کو روایات کا لبادہ پہنا کر تہوار کی شکل دی جاچکی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو اس دجالی یلغار سے بچانا ہوگا جو بے راہ روی کو راہ دے رہی ہے، نہایت درد مندی سے اس کے تدارک کے لیے اپنی ساری توانائیاں صَرف کرنا ہوں گی، سنجیدگی سے کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا اور سختی سے اس پر عمل دارآمدکروانا ہوگا۔ہر ایک کو اپنے شعبے میں جد و جہد کا حصہ ڈالنا ہوگا ۔
اس میں سب بڑا کردار میڈیا کا ہے ۔ میڈیارجحان ساز ہوتا ہے ۔ میڈیا کو اپنے ہر چینل پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ اب وہ وقت ہے کہ اس کے منفی اثرات پر ایک ڈاکومنٹری بنا کر ہر چینل پر چلائی جائے ۔نہ کے اس کو تہوار کی شکل میں پیش کریں ۔ بدقسمتی سے ہمارے اکثر میڈیا چینل اس قبیح رسم کی ترویج و تشہیر میں ممد و معاون ہو رہے ہیں۔
والدین اور اساتذہ کا کردار بلا شبہ بہت اہم ہے۔ والدین اپنے بچوں کو بہتر جانتے ہیں بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پرعمومی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور مخلوط میل جول سے اجتناب کروائیں ۔ اساتذہ بھی اس میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کریں۔ اسکول اور اس کے بعد کالج کے دن بچوں کی زندگی کے اہم اور یاد گار دن ہوتے ہیں ۔ہماری ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ فی زمانہ تعلیمی اداروں میں کردار سازی کا عنصر یکسر نکال دیا گیا ہے۔ خال خال کوئی ایسا استاد ہو گا جو طلباء کو اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہو، نہیں تو ہر استاد اپنے اپنے مضمون کی ’’معلومات‘‘ بچوں تک پہنچاتا ہے اور وہ جسے حقیقی معنوں میں ’’علم و دانش‘‘ کہا جا سکے ہماری دانش گاہوں میں عنقا ہو رہے ہیں۔ بچوں کی معصومیت ویلنٹائن دے جیسی خرافات کی بالکل متحمل نہیں ہو سکتی ۔طلبا کو اس طرح کی فحش اور فضول باتوں سے دور رکھنا استاد کا فرض ہے ۔
اللہ ہم سب کو اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرنے کی توفیق دے۔ آمین!
آمین۔
بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہوئی تحریر۔ بہت شکریہ :)
واقعی یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہمارا میڈیا نہ صرف بچوں کو گمراہ کر رہا ہے بلکہ والدین پر بھی اس کا اثر ہو رہا ہے۔ نتیجتاً بہت سی باتیں جو کچھ عرصہ پہلے تک والدین کے نزدیک قابلِ اعتراض ہوا کرتی تھیں اب ان میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی۔ اور جہاں تک درس گاہوں کی بات ہے وہاں بھی یہی کچھ چل رہا ہوتا ہے۔ اساتذہ خود میڈیا کے زیرِ اثر ان خرافات کو ضروریات سمجھتے ہوں تو بچوں کو اچھے برے کی تمیز کون سکھائے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
محترمہ گل بانو کی تحریر ایک الارم کی حیثیت رکھتی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ سنبھل جانا چاہیے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تحریر بلاشبہ بہت اچھی ہے لیکن
میرے ذہن میں اس سے متعلق کچھ سوالات ہیں لیکن اس بات کا ڈر بھی ہے کہ پھر سے ایک نا ختم ہونے والی بحث شروع ہو جائے گی۔
 

نیلم

محفلین
تحریر بلاشبہ بہت اچھی ہے لیکن
میرے ذہن میں اس سے متعلق کچھ سوالات ہیں لیکن اس بات کا ڈر بھی ہے کہ پھر سے ایک نا ختم ہونے والی بحث شروع ہو جائے گی۔
پوچھوں مُنے کیا پوچھنا ہے حکایت کی روشنی میں آپ کو جوابات دیے جائے گے
جو ڈر گیا وہ مر گیا :D
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نیلم آپا
سنیے پھر کہ ہم اس دن کو نہ منانے پہ تو بہت فتوے دیتے ہیں مگر ہمارے بوائز کالجز کے آدھے سے زیادہ لڑکے گرلز کالجز کے باہر پائے جاتے ہیں، گانے سنے جاتے ہیں ہمارے معاشرے میں، غیر اخلاقی قیب سائٹس سرچ کرنے میں ہم سب سے آگے ہیں، سب برات پہ پٹاخے چلانا بھی تو منع ہے، شادی بیاہ کی رسموں کا بھی کہیں نہیں سنا۔ سب جانتے ہیں کہ وہ ہندو معاشرے سے ہم میں آئی ہیں لیکن سب وہ رسمیں اور تہوار مناتے ہیں، اس کے علاوہ اور بھی کئی خرافات ہیں۔ تو پھر صرف ایک ویلینٹائن ڈے کو ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟
 
نیلم آپا
سنیے پھر کہ ہم اس دن کو نہ منانے پہ تو بہت فتوے دیتے ہیں مگر ہمارے بوائز کالجز کے آدھے سے زیادہ لڑکے گرلز کالجز کے باہر پائے جاتے ہیں، گانے سنے جاتے ہیں ہمارے معاشرے میں، غیر اخلاقی قیب سائٹس سرچ کرنے میں ہم سب سے آگے ہیں، سب برات پہ پٹاخے چلانا بھی تو منع ہے، شادی بیاہ کی رسموں کا بھی کہیں نہیں سنا۔ سب جانتے ہیں کہ وہ ہندو معاشرے سے ہم میں آئی ہیں لیکن سب وہ رسمیں اور تہوار مناتے ہیں، اس کے علاوہ اور بھی کئی خرافات ہیں۔ تو پھر صرف ایک ویلینٹائن ڈے کو ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟
بالکل بجا فرمایا آپ نے، ہمیں ان سب کاموں سے رکنا اور روکنا چاہیے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بالکل بجا فرمایا آپ نے، ہمیں ان سب کاموں سے رکنا اور روکنا چاہیے۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں صرف رکنا چاہیئے۔ اپنی مثال کو سامنے لا کر پھر ہم دوسروں کو روکنے کا اخلاقی جواز رکھتے ہیں۔ میرے ایک دوست ہیں، ماشاء اللہ تبلیغی جماعت سے تعلق ہے ان کا اور ان کی بیوی کا بھی۔ تاہم ان کی شادی پر خسرے بھی ناچے اور دیگر "غیرشرعی" امور اور رسومات بھی پوری طرح ادا ہوئیں۔ جب ہم دوستوں نے ہلکا سا اشارتاً بات کی تو سارا الزام والد صاحب کے سر، کہ جی ان کا حکم ہے تو یہ سب کچھ ہو رہا ہے :) اب بتائیے کہ جب وہ ہمیں تبلیغی مرکز لے کر جانے کی کوشش کرتے ہیں یا کسی غیر شرعی بات سے روکتے ہیں تو ہم کیسے رکیں؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ ہمیں صرف رکنا چاہیئے۔ اپنی مثال کو سامنے لا کر پھر ہم دوسروں کو روکنے کا اخلاقی جواز رکھتے ہیں۔ میرے ایک دوست ہیں، ماشاء اللہ تبلیغی جماعت سے تعلق ہے ان کا اور ان کی بیوی کا بھی۔ تاہم ان کی شادی پر خسرے بھی ناچے اور دیگر "غیرشرعی" امور اور رسومات بھی پوری طرح ادا ہوئیں۔ جب ہم دوستوں نے ہلکا سا اشارتاً بات کی تو سارا الزام والد صاحب کے سر، کہ جی ان کا حکم ہے تو یہ سب کچھ ہو رہا ہے :) اب بتائیے کہ جب وہ ہمیں تبلیغی مرکز لے کر جانے کی کوشش کرتے ہیں یا کسی غیر شرعی بات سے روکتے ہیں تو ہم کیسے رکیں؟
متفق
اوروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت
 
Top