مہدی نقوی حجاز
محفلین
ویلینٹائن کو سلام!
وہ جو پیرِ محبت تھا۔ جو پیار کا آئینہ تھا۔
ہم اس کے سینے میں خود کو دیکھ رہے ہیں۔
ہم بہت دور آ نکلے ہیں۔
یہاں نفرت ایک پیکر ہے۔ محبت ایک سوچ
نفرتوں سے دن منسوب ہیں، راتیں بہری ہو چکی ہیں
یا
محبت چپ ہے۔
چھوڑ دو، ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دو
ہم اس مردِ فقیہ کے لیے ایک دیا روشن کریں گے۔
تیل ہمارے تلوں میں نہیں۔
ہاں، اس بزرگ کا چلو بھر لہو ہے
سبز خوشبو ہے اس کی
ہم،
نہیں، میں۔ میں اس کا پیغام
نہیں، اپنا پیغام
تمہارے حوالے کر رہا ہوں۔
اس کے حاشیے سلگا دینا، اس دیے کی لو سے
پھر محفوظ کر لینا،
تمہارے ویلینٹائن کی طرف سے!
مہدی نقوی حجازؔ
وہ جو پیرِ محبت تھا۔ جو پیار کا آئینہ تھا۔
ہم اس کے سینے میں خود کو دیکھ رہے ہیں۔
ہم بہت دور آ نکلے ہیں۔
یہاں نفرت ایک پیکر ہے۔ محبت ایک سوچ
نفرتوں سے دن منسوب ہیں، راتیں بہری ہو چکی ہیں
یا
محبت چپ ہے۔
چھوڑ دو، ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دو
ہم اس مردِ فقیہ کے لیے ایک دیا روشن کریں گے۔
تیل ہمارے تلوں میں نہیں۔
ہاں، اس بزرگ کا چلو بھر لہو ہے
سبز خوشبو ہے اس کی
ہم،
نہیں، میں۔ میں اس کا پیغام
نہیں، اپنا پیغام
تمہارے حوالے کر رہا ہوں۔
اس کے حاشیے سلگا دینا، اس دیے کی لو سے
پھر محفوظ کر لینا،
تمہارے ویلینٹائن کی طرف سے!
مہدی نقوی حجازؔ