صوفیاء نے جو کلام کہے ہیں وہ زبان زد عام ہیں دراصل صوفیاء کے کلام کا مقصد اصل بات کو مجاز کے رنگ میں بیان کرنا ہے اس مقصد کے لیے اگر ہیر وارث شاہ کا مطالعہ کیا جائے تو طبیعت سیر ہوجائے گی کیونکہ اس میں مجاز کے رنگ میں اصل بات کو بیان کیا گیا ہے جیسے ایک کردار "کیدو" بہت زبان زد عام ہے دراصل یہ کردار ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے اور آپ کو ہر شہر ہر گاؤں ہر محلے میں باآسانی نظر آتا ہے۔ دراصل کافی عرصہ پہلے یہ کلام ملک بلال المعروف اوشو نے سنایا تھا آج
عبدالقیوم چوہدری کی وساطت سے دوبارہ سنا دراصل میں ایسے عارفانہ کلام سننے سے ازحد پرہیز اور گریز کرتا ہوں کیونکہ پھر مجھ پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے اوراس طغیانی و طوفان کے بعد بہت زیادہ ذہنی و دماغی کمزوری محسوس ہوتی ہے پتہ نہیں اب بھی کتنی مشکل سےکچھ عبارات شکستہ و مجہولہ کھینچنے میں کامیاب ہوا ہوں
وے ماہیا تیرے ویکھن نوں
چُک چرخہ گلی دے وچ ڈاہواں
تیری رنگارنگی تیرے رنگ و روپ دیکھنے کے واسطے میں گھر سے نکل آیا اور گھر سے چرخہ بھی اٹھا لایا تاکہ لوگ زیادہ دھیان نہ دے سکیں اور میں اپنا کام توجہ اور یکسوئی سے کرسکوں
میں لوکاں باہنے سوت کٹ دیی
تند تیریاں یاداں دے پاواں
میں لوگوں کو دکھانے کے واسطے سوت کاٹتا ہوں لیکن درحقیقت میں یاد کے تیرے اوصاف کے تیرے تنزل و تنزیہہ کے تانے بانے بنتا ہوں
بابل دی سوں جی نئی لگدا
ساڑے سیک ہجر دی اگ دا
اج میرا دل کردا
گھر چھڈ کے ملنگ بن جاواں
اللہ کی محبت کی قسم ! اس دنیائے فانی میں جی نہیں لگتا ہے اور اس محبوب حقیقی اس بے چوں و بے چگوں کے ہجر کی آگ قلب کو ہلکی ہلکی آنچ دے رہی ہے۔ ایسے میں من یہ کرتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نروان کی تلاش میں ویرانوں میں نکل جاؤں ۔
چرخے دی کُو کڑ دے اوہلے
یاد تیری دا تُنبہ بولے
میں نما نما گیت چھیڑ کے
تند کھچدی ہُلارے کھاواں
روح جو کہ اس جسم فانی کے کالبد (ڈھانچے) میں حکم ربی سے مقید ہےجب محبت حق غلبہ کرتی ہے تو یہ یہ کالبد دیگ کی طرح جوش کرتا ہے اور روح اس جوش کے افق پر جھولا جھولتی ہے
وسن نئی دیندے سورے پیکے
مینوں تیرے پین پلیکھے
وے ہن مینوں دس ماہیا
تیرے باجوں کدر نوں جاواں
اے محبوب حقیقی ! اب تو ہی بتا کہ میں کدھر جاؤں ۔ کیونکہ دنیا و آخرت مجھے تیری طرف آنے سے مانع ہیں یہ مجھے ہزارہا طرف سے غلط فہمیوں میں مبتلا رکھتے ہیں ۔ کہیں دنیا کی نعمتیں لذات و شہوات کے گھیرے ہیں تو کہیں جنت نعیم ، حور و قصور و غلمان و کوثر و تسنیم کے پھندے ہیں۔