عدنان خالد چوہدری
محفلین
ماں جی کی یاد میں
27
مئ2011 کو جب بہاولپور شہر کی مسجدوں میں مووزنوں نے تہجد کی نماز کے لئے الله اکبر کی صدا بلند کی تو آئ.سی.یو میں ماں جی کے سرہانے پر لگی ای.سی.جی.. اور بلڈ پریشر مانیٹرز کی سکرینوں میں اچانک اک ہلچل سی ہوئ اور پھر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئیں..
ماں جی نے آنکھ بھی اسی شہر (یزمان) میں کھولی تھی اور اپنی آخری سانس بھی انھی فضاوں میں لی..
ماں جی کی ذندگی پر کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جس کا عنوان ،یزمان سے بہاولپور، ہے
گو کہ یہ انتہای مختصر سا فاصلہ ہے لیکن ماں جی کے لئے یہ سفر بہت کٹھن دشوار مصائب اپنوں کی نفرتوں طعنہ زنیوں اور الزامات کے پہاڑوں سے بھرپور انتہای دشوارگزار تھ
ماں جی کے لئےالله پاک سے اک التجا
میں جدھر گیا میں جہاں رہا
میرے ساتھ تھا
وہی ایک سایہ مہرباں
وہ جو ایک پارہ ابر تھا سر آسماں
پس ہر گماں
وہ جو ایک حرف یقین تھا
میرے ہر سفر کا امین تھا
وہ جو ایک باغ ارم نما ، سبھی موسموں میں ہرا رہا
وہ اجڑ گیا
وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، میرے راستوں میں جلا رہا
وہ بکھر گیا
میرے غم کو جڑ سے اُکھاڑھتا
وہ جو ایک لمسِ عزیز تھا
کسی کپکپاتے سے ہاتھ کا ، وہ نہیں رہا
وہ جو آنکھ رہتی تھی جاگتی ، میرے نام پر
وہ سو گئی
وہ جو اک دعاِ سکون تھی میرے رخت میں ، وہی کھو گئی
اے خدُائےِ واحد و لم یزل
تیرے ایک حرف کے صید ہیں
یہ زماں مکاں
تیرے فیصلوں کے حضور میں
نہ مجال ہے کسی عذر کی نہ کسی کو تابِ سوال ہے
یہ جو زندگی کی متاء ہے
تیری دین ہے تیرا مال ہے
کہ جب اُسکی ساعت آخری سرِ راہ تھی
میں وہاں ہی تھا
میرے راستوں سے نکل گئی وہ جو ایک جاہِ پناہ تھی
میں وہاں ہی تھا
سرِ شام غم مجھے ڈھونڈتی میری ماں کی بجھتی نگاہ تھی
میں وہاں ہی تھا
میرے چار سو ہے دُھواں دُھواں
میرے خواب سے میری آنکھ تک
یہ جو سیلِ اشک ہے درمیاں
اُسی سیلِ اشک کے پار ہے
کہیں میری ماں
تیرے رحم کی نہیں حد کوئی
تیرے عفو کی نہیں انتہا
کے تو ماں سے بڑھ کے شفیق ہے
وہ رفیق ہے
کے جو ساتھ ہو تو یہ زندگی کی مسافتیں
یہ ازیتیں یہ رکاوٹیں
فقط اک نگاہ کی مار ہیں
یہ جو خار ہیں
تیرے دست معجزہ ساز ہیں
گل خوش جمال بہار ہیں
میری التجا ہے تو بس یہی
میری زندگی کا جو وقت ہے
کٹے اُس کی اُجلی دعاؤں میں
تیری بخشِشوں کے دِیار میں
میری ماں کی روحِ جمیل کو
سدا رکھنا اپنے جوار میں
سد ا پُر ِفضا وہ لحد رہے تیری لطفِ خاص کی چھاؤں میں—
آمین
27
مئ2011 کو جب بہاولپور شہر کی مسجدوں میں مووزنوں نے تہجد کی نماز کے لئے الله اکبر کی صدا بلند کی تو آئ.سی.یو میں ماں جی کے سرہانے پر لگی ای.سی.جی.. اور بلڈ پریشر مانیٹرز کی سکرینوں میں اچانک اک ہلچل سی ہوئ اور پھر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئیں..
ماں جی نے آنکھ بھی اسی شہر (یزمان) میں کھولی تھی اور اپنی آخری سانس بھی انھی فضاوں میں لی..
ماں جی کی ذندگی پر کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جس کا عنوان ،یزمان سے بہاولپور، ہے
گو کہ یہ انتہای مختصر سا فاصلہ ہے لیکن ماں جی کے لئے یہ سفر بہت کٹھن دشوار مصائب اپنوں کی نفرتوں طعنہ زنیوں اور الزامات کے پہاڑوں سے بھرپور انتہای دشوارگزار تھ
ماں جی کے لئےالله پاک سے اک التجا
میں جدھر گیا میں جہاں رہا
میرے ساتھ تھا
وہی ایک سایہ مہرباں
وہ جو ایک پارہ ابر تھا سر آسماں
پس ہر گماں
وہ جو ایک حرف یقین تھا
میرے ہر سفر کا امین تھا
وہ جو ایک باغ ارم نما ، سبھی موسموں میں ہرا رہا
وہ اجڑ گیا
وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، میرے راستوں میں جلا رہا
وہ بکھر گیا
میرے غم کو جڑ سے اُکھاڑھتا
وہ جو ایک لمسِ عزیز تھا
کسی کپکپاتے سے ہاتھ کا ، وہ نہیں رہا
وہ جو آنکھ رہتی تھی جاگتی ، میرے نام پر
وہ سو گئی
وہ جو اک دعاِ سکون تھی میرے رخت میں ، وہی کھو گئی
اے خدُائےِ واحد و لم یزل
تیرے ایک حرف کے صید ہیں
یہ زماں مکاں
تیرے فیصلوں کے حضور میں
نہ مجال ہے کسی عذر کی نہ کسی کو تابِ سوال ہے
یہ جو زندگی کی متاء ہے
تیری دین ہے تیرا مال ہے
کہ جب اُسکی ساعت آخری سرِ راہ تھی
میں وہاں ہی تھا
میرے راستوں سے نکل گئی وہ جو ایک جاہِ پناہ تھی
میں وہاں ہی تھا
سرِ شام غم مجھے ڈھونڈتی میری ماں کی بجھتی نگاہ تھی
میں وہاں ہی تھا
میرے چار سو ہے دُھواں دُھواں
میرے خواب سے میری آنکھ تک
یہ جو سیلِ اشک ہے درمیاں
اُسی سیلِ اشک کے پار ہے
کہیں میری ماں
تیرے رحم کی نہیں حد کوئی
تیرے عفو کی نہیں انتہا
کے تو ماں سے بڑھ کے شفیق ہے
وہ رفیق ہے
کے جو ساتھ ہو تو یہ زندگی کی مسافتیں
یہ ازیتیں یہ رکاوٹیں
فقط اک نگاہ کی مار ہیں
یہ جو خار ہیں
تیرے دست معجزہ ساز ہیں
گل خوش جمال بہار ہیں
میری التجا ہے تو بس یہی
میری زندگی کا جو وقت ہے
کٹے اُس کی اُجلی دعاؤں میں
تیری بخشِشوں کے دِیار میں
میری ماں کی روحِ جمیل کو
سدا رکھنا اپنے جوار میں
سد ا پُر ِفضا وہ لحد رہے تیری لطفِ خاص کی چھاؤں میں—
آمین