فاخر
محفلین
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
افتخاررحمانی ،نئی دہلی
یہ دینا آنی جانی ہے ہر شی فانی ہے ’’ کل من علیہا فان ،و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘۔صوبہ بہار کی مردم خیز سرزمین اورمردم ساز زمین کا ایک مرد جانباز ہم سے یوں رخصت ہوا کہ شعور و حس نے کبھی اس کا ادراک کیا ہوکہ جو ابھی شب میں عوام کے درمیان عرفان وآگہی کا درس دے رہے تھا وہ یکلخت چند گھنٹوں کے بعد رفیق اعلیٰ سے جا ملے گا ۔ تحسر و غم کے ساتھ یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ جن کو کل تک ہم مولانا اسرارالحق قاسمی ؔ ’مدظلہ‘ لکھ رہے تھے، ان کے لیے اب ’رحمۃ اللہ علیہ ‘ لکھنا پڑرہاہے ۔ مومن کی مرگ مفاجات حساب و کتاب میں آسانی کا باعث ہے جب کہ یہ مرگ مفاجات کفار کے لیے باعث زحمت و تکلیف ۔ ان کے کارنامے ملت وقوم کے لیے بے مثال ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں ۔ باشندگان کشن گنج نے دو مرتبہ ان کو پارلیامنٹ کے لیے اپنا نمائندہ منتخب کیا جو ان کی صداقت و دیانت اور ایمانداری ،نیز اعتماد و عقیدت کو ظاہر کرتا ہے ۔ صبح تقریباً دس بجے واٹس ایپ دیکھا تو یہ الم انگیز خبر گردش کررہی تھی کہ ایم پی اور معروف عالم دین مولانا اسرارالحق مدظلہ اب ’رحمۃ اللہ علیہ ‘ ہوچکے ہیں ۔ مکرمی نایاب حسن صاحب سے اس کی تصدیق چاہی ، انہوں نے اس کوہ گراں حادثہ کی تصدیق کی ۔ ان کی رحلت صرف کشن گنج اور صوبہ بہار کے لیے ہی ناقابلِ تلافی ہے ؛بلکہ ملت اسلامیہ کے لیے بھی ناقابل تلافی نقصان ہے ، ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے ، اس کا پرکیا جانا ناممکن ہوگا ۔ میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوسکی ؛لیکن بحیثیت فرد قوم ان سے غائبانہ عقیدت تھی اور اس عقیدت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب مولانا اسرارالحق رحمۃ اللہ علیہ پہلی مرتبہ 2009 میں ممبر آف پارلیامنٹ منتخب ہوئے تھے تو والدگرامی نے مسرت و خوشی سے یہ اطلاع دی تھی کہ ان کے استاد مولانا اسرارالحق صاحب کشن گنج لوک سبھا نشست سے ایم پی منتخب ہوگئے ہیں ۔ بعد میں انہوں نے یہ وضاحت کی کہ مولانا اسرارالحق صاحب سے مدرسہ بدرالاسلام بیگوسرائے کے قیام( 65 -70) کی دہائی میں درجات عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں ، اس وجہ سے بھی ان سے غائبانہ عقیدت اور محبت تھی۔ آج ہم سےدور جاچکے ہیں ؛بلکہ رفیق اعلیٰ سے جاملے ہیں اللہ تعالیٰ ا ن کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے ،ملت کو ان کا بدل عطا فرمائے ،ملی فاؤنڈیشن کے لیے بھی ان کا بدل نصیب فرمائے آمین ثم آمین ۔ دکھ کی اس گھڑی میں راقم بحیثیت ایک ’شاگرد زادہ‘ اہل خانہ کے ساتھ ہے اور ان کو تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہے۔ ’’ للہ لہ ما اخذ ولله ما اعطىٰ وكل شىء عنده بمقدار۔اسال الله العظيم ان يتغمد الفقيد برحمتہ الواسعۃ,وان يلهمكم الصبر والسلوان ۔ آمین ثم آمین‘‘
نوٹ : تمام محفلین سے حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کی درخواست ہے
افتخاررحمانی ،نئی دہلی
یہ دینا آنی جانی ہے ہر شی فانی ہے ’’ کل من علیہا فان ،و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘۔صوبہ بہار کی مردم خیز سرزمین اورمردم ساز زمین کا ایک مرد جانباز ہم سے یوں رخصت ہوا کہ شعور و حس نے کبھی اس کا ادراک کیا ہوکہ جو ابھی شب میں عوام کے درمیان عرفان وآگہی کا درس دے رہے تھا وہ یکلخت چند گھنٹوں کے بعد رفیق اعلیٰ سے جا ملے گا ۔ تحسر و غم کے ساتھ یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ جن کو کل تک ہم مولانا اسرارالحق قاسمی ؔ ’مدظلہ‘ لکھ رہے تھے، ان کے لیے اب ’رحمۃ اللہ علیہ ‘ لکھنا پڑرہاہے ۔ مومن کی مرگ مفاجات حساب و کتاب میں آسانی کا باعث ہے جب کہ یہ مرگ مفاجات کفار کے لیے باعث زحمت و تکلیف ۔ ان کے کارنامے ملت وقوم کے لیے بے مثال ہیں جن کا احاطہ ممکن نہیں ۔ باشندگان کشن گنج نے دو مرتبہ ان کو پارلیامنٹ کے لیے اپنا نمائندہ منتخب کیا جو ان کی صداقت و دیانت اور ایمانداری ،نیز اعتماد و عقیدت کو ظاہر کرتا ہے ۔ صبح تقریباً دس بجے واٹس ایپ دیکھا تو یہ الم انگیز خبر گردش کررہی تھی کہ ایم پی اور معروف عالم دین مولانا اسرارالحق مدظلہ اب ’رحمۃ اللہ علیہ ‘ ہوچکے ہیں ۔ مکرمی نایاب حسن صاحب سے اس کی تصدیق چاہی ، انہوں نے اس کوہ گراں حادثہ کی تصدیق کی ۔ ان کی رحلت صرف کشن گنج اور صوبہ بہار کے لیے ہی ناقابلِ تلافی ہے ؛بلکہ ملت اسلامیہ کے لیے بھی ناقابل تلافی نقصان ہے ، ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے ، اس کا پرکیا جانا ناممکن ہوگا ۔ میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوسکی ؛لیکن بحیثیت فرد قوم ان سے غائبانہ عقیدت تھی اور اس عقیدت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب مولانا اسرارالحق رحمۃ اللہ علیہ پہلی مرتبہ 2009 میں ممبر آف پارلیامنٹ منتخب ہوئے تھے تو والدگرامی نے مسرت و خوشی سے یہ اطلاع دی تھی کہ ان کے استاد مولانا اسرارالحق صاحب کشن گنج لوک سبھا نشست سے ایم پی منتخب ہوگئے ہیں ۔ بعد میں انہوں نے یہ وضاحت کی کہ مولانا اسرارالحق صاحب سے مدرسہ بدرالاسلام بیگوسرائے کے قیام( 65 -70) کی دہائی میں درجات عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں ، اس وجہ سے بھی ان سے غائبانہ عقیدت اور محبت تھی۔ آج ہم سےدور جاچکے ہیں ؛بلکہ رفیق اعلیٰ سے جاملے ہیں اللہ تعالیٰ ا ن کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے ،ملت کو ان کا بدل عطا فرمائے ،ملی فاؤنڈیشن کے لیے بھی ان کا بدل نصیب فرمائے آمین ثم آمین ۔ دکھ کی اس گھڑی میں راقم بحیثیت ایک ’شاگرد زادہ‘ اہل خانہ کے ساتھ ہے اور ان کو تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہے۔ ’’ للہ لہ ما اخذ ولله ما اعطىٰ وكل شىء عنده بمقدار۔اسال الله العظيم ان يتغمد الفقيد برحمتہ الواسعۃ,وان يلهمكم الصبر والسلوان ۔ آمین ثم آمین‘‘
نوٹ : تمام محفلین سے حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کی درخواست ہے
مدیر کی آخری تدوین: